الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المیوں کی ماں

بسم الله الرحمن الرحيم

پشاور واقعے جیسے لرزہ خیزواقعات کسی بھی با شعور قوم کو احساس دلانے  کے لئے کافی  ہوتے ہیں، مگر یہاں  ایک اور بڑا المیہ ہے،جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ  اُمت عرصہ دراز سےان جیسے  المیوں سے  مانوس ہوچکی ہے۔ یہ کوئی نیا المیہ نہیں  یکے بعد دیگرے مسلم علاقوں میں مسلمان ماؤں ،بہنوں کی عصمت دری اور بچوں ،بوڑھوں کو بے دریغ قتل کرڈالنے کے بے شمار واقعات  تاریخ کے اوراق  اور آج کی جدید ٹیکنالوجی  کے ذریعے متحرک شکل میں محفوظ ہیں۔  وحشت وبربریت  کے ایسی داستاں رقم کی گئی جس میں جدید ٹیکنالوجی کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ خاص اسی مقصد کے لئے  بنائے گئے آلات اورتشدد کے نت نئے طریقے آزمائے گئے۔ انسانیت پر مسلط کی گئی  جنگ ،پریشانی اور بے چینی  صرف مسلمانوں تک ہی محدود  نہیں رہی۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے تباہ کن واقعات انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ  کی حیثیت سے تا قیامت موجود رہیں گے۔ مگر جدید ظلم  ودردندگی کا نشانہ سوچے سمجھے منصوبے اور منظم سازش کے ذریعے  اکثر مسلمان بنتے رہے ہیں۔ بوسنیا اور چیچنیا کے اندر روس اور سربیا کے مظالم  کے خوفناک مناظر آنکھوں کےسامنے ہیں۔  گوانتاناموبے ، ابوغریب اور بگرام  کے قیدخانوں کےانسانیت سوز اور حیا سوز واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ماضی قریب میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھسٹوں کی ستم کاریاں ، شام کے مسلمانوں پر اسد ی حکومت کی طرف سے پٹرول بموں کی بارش اور اس کے ہاتھوں دمشق شہر کی تہہ وبالا کی گئی عمارتیں اور لہو رنگ مناظر۔   وحشت ،سفاکیت اور بہیمیت  سے بھر پور المیوں  کی ایک  طویل  اور ناقابل بیان  ناقابل فراموش تاریخ ہے ۔   یہاں میں جس المیے کی بات کرنا چاہتا ہوں وہ المیۂ فکریہ ہے،یعنی جب انسانیت  کوصحیح حل سے  محروم کردیا جائے  اور اس کی سوچنے کی صلاحیت ہی متاثر ہوجائے ،جب سچ بولنا جرم ٹھہرجائے ،جب ظلم روکنے کو دہشت گردی سے موسوم  اور دہشت گردی کو امن اور انصاف کی تلاش کا نام دیا جائے۔ جہاں دلیل کے بجائے جبر اور طاقت کی زبان بولی جاتی ہو،تو یہ تمام المیوں سے بڑھ کر المیہ ہے، یہ المیوں کی ماں ہے، ماں! وجہ یہ ہے کہ جب صحیح حل تک رسائی ہی نہیں ہورہی یا نہیں ہونے  دی جارہی تو ظاہرہے کہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اورانسانیت سسک سسک کر تڑپتی رہے گی اور درندگی ،وحشت وبربریت کا شکار رہے گی ،جو اس کی بدبختی ہے۔

 

بلاشبہ اس طرح کے واقعات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بہت جلد اصل اسباب وعوامل کا تعین  کرکے حقائق تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں  پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتے  ہیں تاکہ مستقبل میں سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے اور اگر سچ  پر قدغن نہ ہو اور رائے کی آزادی کی بجائے اس کے مبنی بر دلیل ہونے کو مدِ نظر رکھا جائے توحق و سچائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔  مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ "وسیع تر قومی مفاد" ،"دہشت گردی کے خلاف جنگ "، "ملکی سالمیت " وغیرہ یہ کیا ہے ، ان الفاظ کی حقیقت مکمل طورپرمبہم اور بے بنیاد دعوؤں کے سوا  کچھ نہیں۔جنہیں مختلف مواقع پر استعمال کرکے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حقائق تک رسائی  کے نام پر حقائق کو اوجھل رکھنے کی کوشش ، رسمی مذمت  اور جذباتی ماحول ،اورخوف کی فضائیں تخلیق کرکے  غیر معمولی حالات کا نام دے کربیرونی طاقتوں کے فائدے کے قوانین کی منظوری  اصل کامیابی اور حل سمجھا جاتا ہے۔  المیہ تب ہوتا ہے کہ جب دشمن اپنی چالاکی وہوشیاری کو بروئے کار لاکر اس حد تک حواس باختہ کردے اور اپنے آپ کو اس حد تک خفیہ رکھے کہ وہ  وار پر وارکرتا رہے ، مگر آپ  فیصلہ ہی نہ کر سکیں کہ وار کرنے ولا کون ہے۔  دشمن پے درپے ضرب اس مقصد کے لئے لگاتا ر ہے کہ سوچ بچار کاموقع ہی نہ ملےاورآپ   حواس باختگی کے عالم میں اِدھر اُدھر  لپٹ جھپٹ کر حملہ کرتےر ہیں۔ یہ ہے ہلاکت وبربادی کہ جس میں پاکستان کے مسلمانوں کو مبتلا کردیا گیا ہے۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ قول وعمل میں تضاد بہت مستحکم ہوچکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ یہ  تضاد ناسمجھی ،سادگی یا بے وقوفی کی وجہ سے نہیں بلکہ قوم کا  لہو بیچنے کے لئے ہے ۔  کیا یہ بہت عجیب بات نہیں کہ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے اور دوسری طرف امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسے بد نام زمانہ تنظیموں کو باقاعدہ ویزے جاری کئے جائیں اور انہیں ہر جگہ آزادانہ ،اسلحہ اور جاسوسی کے آلات سے لیس ،بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیوں میں پھرنے کی اجازت بلکہ تحفظ  فراہم کیاجائے؟  یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ بڑے بڑے سانحے ہوتے رہے اور اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے کمیٹیاں بنانے ،اتفاق رائے وغیرہ جیسے غیر ضروری کاموں میں وقت صرف کیا جائے ،کیا یہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ اخلاص ہے ؟

 

آج کل اکثر جنگیں اسٹریٹجک بنیادوں پر لڑی جاتی ہیں۔بالخصوص امریکہ کی اگر ہم بات کریں۔  مثلاً    بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں،مگر یہ دھمکی عوام کے لئے تو دھمکی ہوسکتی ہے،اصحاب اقتدار کے لئے نہیں ، اس لئے کہ یہ سب کچھ گٹھ جوڑ کے بعد ہوتا ہے ۔  امداد کے نام پر سیاسی وعسکری اور اقتصاد ی پالیسیوں پر اثرانداز ہونا، ایجنٹ اشخاص وحکومتیں،مبہم اصطلاحات :جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ،انصاف،انسانیت وغیرہ، وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں استعماری منصوبہ ساز اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بروئے کار لاتے  رہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  آج تک دہشت گردی کی تعریف ہی متعین نہیں کی جاسکی  بلکہ آج کل  "سہولت کاروں" کی جو اصطلاح نکلی ہے ،اُن سے کون لوگ مراد ہیں؟  کوئی واضح تعین نہیں۔

 

المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ ایسے مواقع پر صرف موم بتیاں جلا کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور دشمن کی چال میں آکر اس کانام لینے کے بجائے اس کو گالیاں دیتےاور لعنت بھیجتے  ہیں جنہیں  دشمن ان سے  دلوانا  چاہتا ہے۔ یوں دشمن کے منصوبے آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ہمارے بچوں کا خون ہوتا رہتا ہے۔   یہ کام اکثر لوگ سطحیت کی وجہ سے کر رہے ہیں مگر اس کااصل سبب  صاحبان اقتدار ہیں جو میڈیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور میڈیا  اصل حقائق جاننے کے باوجود  انہیں بیان نہیں کرسکتا ۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسا اشتعال انگیز ماحول قائم ہوجاتا ہے کہ  ایک طرف  خون کی ندیاں بہتی ہیں  جبکہ  دوسری طرف اسی ہنگامہ آرائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصل ذمہ داروں عوام کے سامنے بے نقاب نہیں ہوتے۔  ایسے میں اگر کوئی حقائق جاننے کی بات کرتا ہے تو اس کا تمسخر اُڑایا جاتا ہے ۔اور بے سروپا دلائل کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔   ہونا تو یہ چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟  اصل مسئلہ کہاں ہے اور کیسے حل کریں؟ مگر ہائے رے کم نصیبی!

 

ایسے مواقع پر سربراہان ِقوم مسئلہ کاحل ڈھونڈنے کے لئے اکٹھے ہوکر سنجیدگی سے سوچتے ہیں ،مگر جب قیادت ہی بکی ہوئی ہو تو آپ خود سوچئے ، کیا ہوگا؟  ابہام درابہا م درابہام ! سنجیدگی کا سب سے  اولین تقاضا یہ ہے کہ  اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا جائے جس کی بنیاد پر ہم فیصلہ کریں ۔تاکہ کوئی ابہام نہ رہے، لیکن یہاں ایسا نہیں۔

اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہم نے مندرجہ ذیل کام  طےکرنے ہوں گے:

1-      دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے۔

2-      اس تعریف کا مصداق کون کون ہے، ان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا سنائی جائے۔

3-      کیا قابض کفار کے خلاف جہاد دہشت گردی ہے؟اس کو واضح کیا جائے  اور اسی کی روشنی میں  افغانستان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ   کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔

4-      ہمارے چھوٹے بڑے تمام فیصلوں کی بنیاد کیا ہونی چاہئے؟

5-      کیا اسلامی نظام کے نفاذ اور اپنے فیصلے قرآ ن وسنت کی بنیاد پر کرنے کا مطالبہ یا اس مقصد کے لئے جدوجہد کرنا انتہا پسندی اور جرم ہے؟۔

6-      کیا  اسلامی نظام سے مسلمانان پاکستان کو محروم رکھنا جرم نہیں؟

7-      یا پھر ایسا ہے کہ اسلام ناقبل عمل ہے؟ جس کو موضوع بحث نہیں بنانا چاہئے۔

8-      اگر یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے تو کیوں؟

9-      حساس مقامات تک کسی بھی غیر ملکی کورسائی دیناکیا حیثیت رکھتا ہے؟

10-  غیر ملکی حملہ آور یا دہشت گرد حساس مقامات تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ جبکہ ملک کے حالات غیر معمولی ہیں؟

11-  سہولت کار کون ہے؟

یہ وہ  امور ہیں جو اگر طے ہو جائیں تو  ہم اس مخمصے سے بہت جلد نکل سکتے ہیں کہ جس میں پاکستان کے عوام کو پچھلے کئی سالوں سے مبتلا کیا گیا ہے۔ ان سوالات  میں اہم ترین سوال نمبر 4 ہے  ۔ آج تک جن المیوں سے ہم دوچار ہوتے رہے ہیں ،ان کی اصل بنیاد قوم کو بیوقوف بنانے کی پالیسی ہے جس میں ابہام اور عدم شفافیت سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہی  وجہ ہے کہ ہمارے کئی لوگ ایسے ہیں جو اس حوالے سے شک وشبہ کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اس خونریزی ، قتل وغارت گری  اور تباہی وبربادی کا اصل ذمہ دارامریکہ ہے جو براہ راست ان جیسے مذموم کاروائیوں میں ملوث ہے یا کوئی اور۔اور جنہیں یہ یقین کرنا مشکل پڑتا ہے کہ ایک حکمران کس طرح قوم کی عزت وناموس اور جان ومال کے سودوں کا دھندا کرنے میں ملوث ہوسکتا ہے؟  اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطاء فرمائے۔ آمین!

 

تحریر : راغب فاتح

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک