بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم حکمرانوں کی غداری کی وجہ سے غزہ پر جنگ دوبارہ مسلط کر دی گئی ہے
جبکہ حقیقی تبدیلی کا موقع بھی پھر سے میسر آیا ہے
(ترجمہ)
"اسرائیلی" جارحیت منگل، 17 مارچ کی صبح دوبارہ شروع ہوئی، جب ان کی فوج نے غزہ پٹی پر اچانک حملے شروع کیے، جن میں سینکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل تھے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ یہودی وجود نے اپنے اس حملے کو ایک کھلی امریکی منظوری کے ساتھ انجام دیا، حالانکہ امریکہ نے ہی جنگ بندی معاہدے کے تین مراحل کی سرپرستی کی تھی۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری، کیرولین لیویٹ، نے بیان دیا کہ، ’’ٹرمپ انتظامیہ اور وائٹ ہاؤس کو اسرائیلیوں نے آج رات غزہ میں اپنے حملوں کے بارے میں مشورہ دیا تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’’جیسا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے- حماس، حوثی، ایران، اور وہ سب جو صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی دہشت زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔ ان پر ایک قیامت برپا کی جائے گی‘‘۔ سرکاری اسرائیلی نشریاتی ادارے نے کہا کہ یہودی وجود نے 17 مارچ 2025 کی صبح حملے سے قبل امریکہ کو غزہ پٹی پر حملے کے منصوبوں سے آگاہ کر دیا تھا۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ امریکہ نے یمن پر بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔ ٹرمپ نے حوثیوں کے خلاف حملے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس سے ایک بڑے فوجی آپریشن کے آغاز کا عندیہ ملتا ہے جو کئی ہفتے جاری رہ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکی فضائی حملوں کا مقصد حوثیوں کو بحیرہ احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے سے روکنا ہے۔یہ واضح ہے کہ حوثیوں کے حملوں کا ہدف صرف یہودی قابض وجود کے بحری جہاز ہیں، نہ کہ تمام بین الاقوامی تجارتی جہاز۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ امریکہ حوثیوں کی ان کوششوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جو یہودی وجود کے مفادات اور غزہ پر مسلط جنگ کو متاثر کر سکتی ہیں"۔
امریکہ حوثیوں کو ان کے تنازع اور حملوں سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے اس نے پہلے جنوبی لبنان کے محاذ کو غیر مؤثر بنایا، ایران کے حمایت یافتہ حزب کو لیتانی دریا کے پار دھکیل دیا، جس کی وجہ سے یہودی وجود کے خلاف اس کی تمام کارروائیاں رک گئی۔ بعد ازاں، امریکہ نے ایران کو مجبور کیا کہ وہ اپنے اثاثوں سے دستبردار ہو جائے اور ان سے لاتعلقی اختیار کر لے۔ پھر اس نے ایران کو شام سے ذلت آمیز انداز میں نکال باہر کیا، اسے مایوسی کے عالم میں پسپائی پر مجبور کیا، اور یہودی وجود کے گرد و نواح سے بے دخل کر دیا۔ اگر امریکہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو وہ غزہ پر جاری جنگ کو کسی بھی بیرونی اثر و رسوخ سے محفوظ کر لے گا، تاکہ امریکہ اور یہودی وجود اس جنگ پر مکمل تسلط جما سکیں۔ خاص طور پر جب امریکہ پہلے ہی یہ یقینی بنا چکا ہے کہ تمام مسلم حکمرانوں نے غزہ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، امت اور اس کی افواج کو غزہ کی مدد سے روک دیا ہے، اور یہاں تک کہ انہوں نے یہودیوں کو ان کی جنگ میں ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے۔
موجودہ صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ یہودی، ٹرمپ کی مکمل حمایت کے ساتھ، ایک بار پھر غزہ پر جنگ مسلط کر رہے ہیں، اور ایسے معاہدے چاہتے ہیں جن میں وہ سب کچھ حاصل کریں اور بدلے میں کچھ بھی نہ دیں۔ اس بار، یہ ایک جنگ ہے جس میں کوئی ضمنی مسائل نہیں، کوئی سفارتی خوش اخلاقی نہیں، بلکہ محض تباہی اور مکمل نسل کشی کی دھمکی ہے۔
یہ سچ ہے کہ بہت سے تجزیہ کار اور مبصرین داخلی مسائل اور اہداف کی نشاندہی کر رہے ہیں، جن میں داخلی تنازعات، احتجاجات، شین بیٹ کے سربراہ کی برطرفی، عوامی ناراضی، بجٹ کے مسائل، بین گویر کی واپسی، فوج اور چیف آف اسٹاف کی ساخت میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ ساتھ ہی، یہ حقیقت بھی نمایاں ہے کہ یہ جنگ نیتن یاہو کو اقتدار میں طویل عرصے تک برقرار رہنے کی امید دے رہی ہے، تاکہ وہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں اپنی ناکامی کی جوابدہی سے بچ سکے اور اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ جاری داخلی بحران سے نکل سکے۔ اس بحران کا حالیہ مظہر شین بیٹ کے سربراہ رونین بار کے ساتھ اس کا تنازع تھا، ایسے وقت میں جب عوامی رائے بڑے پیمانے پر نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں کی تیاری کر رہی تھی۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مقاصد اور اہداف، چاہے وہ زیادہ تر درست ہی کیوں نہ ہوں، اس بڑے منصوبے کے اصل مقصد مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نام نہاد نئی تقسیم—جس کا اعلان ایک سے زائد مرتبہ ایک یہودی وزیر اعظم کر چکا ہے—یہ وہی تجویز ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کو بھی بے حد پسند ہے۔ ٹرمپ سمجھتا ہے کہ وہ جو چاہے حاصل کر سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی خیالی اور غیر منطقی کیوں نہ لگے۔ مثال کے طور پر، ٹرمپ اب بھی اہلِ غزہ کو بے دخل کرنے اور غزہ پر ناپاک وجود کا قبضہ جمانے کے ارادے پر مُصر ہے۔ وہ حماس کو فوجی اور سیاسی منظرنامے سے نکالنا چاہتا ہے، خطے میں ایران کے اثر و رسوخ اور اس کے اثاثوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران ایک جوہری ریاست نہ بن سکے، اور یہودیوں کو وہ تمام اقدامات کرنے کی اجازت دینا چاہتا ہے جو ان کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھے جائیں، جیسے شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنا اور وہاں مستقل قیام رکھنا، جنوبی لبنان میں ضروری انتظامات کرنا، فلسطینی ریاست کے منصوبے کو ختم کرنا، اور ہمسایہ ممالک خصوصاً سعودی عرب کے ساتھ کھلے عام تعلقات معمول پر لانا۔ اور ان سب اقدامات کے بعد، یہودی وجود کو مسلم ممالک کے خلاف کھلا چھوڑ دینا، تاکہ وہ امریکہ کا جنگی آلہ کار اور مشرق وسطیٰ میں اس کا ایک جدید فوجی اڈہ بن سکے، جو خطے کو امریکی کنٹرول سے باہر جانے سے روکے گا۔
جہاں تک حماس کے مستقبل کا تعلق ہے، تو امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی، اسٹیو وِٹکوف، نے 22 مارچ 2025 کو 'دی ٹکر کارلسن شو (The Tucker Carlson Show)' میں ایک انٹرویو میں کہا، 'حماس کیا چاہتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہنا چاہتی ہے۔ اور وہ غزہ پر حکومت کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ جو ہمارے لیے قابل قبول ہے وہ یہ ہے کہ انہیں غیر مسلح ہونا ہوگا۔ پھر شاید وہ کچھ دیر کے لیے وہاں رہ سکیں۔ سیاسی طور پر شامل رہ سکیں۔ لیکن وہ عسکری طور پر شامل نہیں ہو سکتے'۔
ایرانیوں کے حوالے سے وِٹکوف نے ٹکر کارلسن سے کہا، 'اگر وہ جوہری بم حاصل کر لیتے ہیں، تو وہ جی سی سی (Gulf Cooperation Council) میں ایک نئی شمالی کوریا کی طرح بن جائیں گے۔ اور ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ شمالی کوریا، جو کہ ایک چھوٹا سا ملک ہے، اپنی موجودہ حیثیت میں غیر متوقع اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ ہم کبھی کسی کو جوہری ہتھیار حاصل کر کے غیر متناسب اثر و رسوخ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ ناممکن ہے'۔ انہوں نے ایرانی جوہری مسئلے کے حل کی امید بھی ظاہر کی۔
یہودیوں کی سلامتی اور معمول کے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا: 'اگر ہم ان دہشت گرد تنظیموں کو خطرے کے طور پر ختم کر دیں—جو وجودی خطرہ نہیں، بلکہ عدم استحکام کا باعث ہیں—تو ہم ہر جگہ تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں'۔
یہ واضح کرتے ہوئے کہ غزہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے بے دخلی کا معاملہ اب بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے 4 فروری 2025 کو کہا تھا: "کسی نہ کسی مرحلے پر، ہمیں حقیقت پسندانہ طور پر دیکھنا ہوگا کہ غزہ کو کیسے دوبارہ تعمیر کیا جائے؟ یہ کیسا نظر آئے گا؟ اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ بہت سے لوگ غیر حقیقی ٹائم لائنز پر غور کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم 10 سے 15 سال کی بات کر رہے ہیں"۔
22 مارچ 2025 کو اپنی میٹنگ کے دوران، "اسرائیلی" کابینہ نے بھی وزیر دفاع کیٹز کی اس تجویز کو منظور کر لیا، جس کے تحت ایک انتظامیہ قائم کی جائے گی جو غزہ کے رہائشیوں کی "رضاکارانہ" نقل مکانی کو کسی تیسرے ملک میں منظم کرے گی۔
یہ واضح ہے کہ امریکہ یہودی وجود کے ساتھ مل کر اس کے تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، جن میں اس کے تمام قیدیوں کی رہائی، حماس کا خاتمہ، اور اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ غزہ یہودی وجود کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ مزید یہ کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے نقشے کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے اپنے منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے، خاص طور پر ایران کو منظرنامے سے ہٹانے کے بعد، تاکہ یہودی وجود کو خطے میں اپنا جدید فوجی اڈہ بنا سکے اور اگر ٹرمپ کامیاب ہو گیا تو غزہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لے سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ان خدشات اور مشکلات سے آگاہ ہے، چاہے وہ ان کو نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کرے، جب تک کہ وہ خود کو ان پر مسلط نہ کر لے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں امریکہ نے ان میں سے کچھ کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ جیسا کہ امریکی ایلچی، اسٹیو وِٹکوف نے کہا: 'میرا خیال ہے کہ مصر ایک اہم نکتہ ہے۔ مصر میں ایک بے چین آبادی ہے۔ مصر میں بے روزگاری کے اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں — 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری تقریباً 45 فیصد ہے۔ کوئی بھی ملک اس طرح نہیں چل سکتا۔ وہ بنیادی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔ اگر مصر میں کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے، تو یہ ہمیں پیچھے دھکیل سکتا ہے'۔ اسلامی دنیا ہلچل کی کیفیت میں ابل رہی ہے جیسے ہنڈیا میں کھولتا ہوا پانی ہوتا ہے۔ یہ خطہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے، جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔
مسلم امت قتل و غارت، جرائم اور سرکشی کے مناظر دیکھ رہی ہے، اور اس کے دل اپنے بیٹوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے لیے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے دل غم اور غداری کے کرب سے پھٹنے کو ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ یہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار رہے گی۔
یہ سچ ہے کہ اگر مسلمان اور ان کی افواج اپنی طویل غفلت سے نہ جاگے تو ان کا انجام بھیانک ہوگا۔ ٹرمپ ان کے ممالک پر ایک کے بعد ایک حملہ کرے گا۔ لیکن دوسری طرف، امت ایک ایسی بےمثال کیفیت سے گزر رہی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ وہ اپنے ان حکمرانوں کے گلے تک ہاتھ ڈالنے کے قریب ہے، جنہوں نے امت کو اس کے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے اور اس کی مدد کے لیے ایک انگلی تک نہیں اٹھائی۔ پس، مسلم افواج میں موجود مخلص افراد کو فوراً حرکت میں آنا چاہیے، اسلام اور مسلمانوں کی مدد کے لیے، اور یہود، امریکہ اور تمام کفریہ قوتوں کے خلاف صف بندی کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش کو عملی جامہ پہنا دیں۔ ہم آپ کو پکار رہے ہیں اور اب آپ کے جواب کے منتظر ہیں!
تحریر: باھر صالح
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے رکن
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...