بسم الله الرحمن الرحيم
زیلنسکی کا دورہ امریکہ: اس کے مقاصد، وجوہات اور نتائج
28 فروری 2025ء کو یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک واشنگٹن میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھی شریک تھے۔
اس دورے کا مقصد نایاب زمینی دھاتوں سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کرنا تھا، لیکن کیف (یوکرین)سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق زیلنسکی امریکیوں کی جانب سے تجویز کردہ شرائط پر اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اس دستاویز کے اس مسودے پر اصرار کیا جو یوکرین نے تیار کیا تھا اور جس میں سکیورٹی گارنٹی بھی شامل تھی۔
تاہم، نتیجہ خیز بات چیت کے بجائے، یہ ملاقات جنگ کا میدان بن گئی، جہاں دونوں فریقوں کے درمیان لفظی حملے اور کھلی دشمنی پر مبنی بیانات دیکھنے کو ملے۔
جو کچھ ہوا اس کے اسباب اور نتائج کو سمجھنے کے لئے، مندرجہ ذیل پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہے:
ٹرمپ نے اوول آفس دوبارہ جوائن کرنے کے بعد ، جیسا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے تھے، روس - یوکرین جنگ کو جلد ازجلد ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ایک خودسر اور مغرور امریکی تاجر ہونے کے ناطے، ٹرمپ نے اس مسئلے کی سنگینی کو کم درجہ ترسمجھا، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ ادراک بھی نہ کرسکا کہ دو فریق، یعنی یوکرین اور روس باہمی سمجھوتے سے کس حد تک دور ہیں۔ بظاہر، یہ تشویش صرف یوکرینی بحران سے متعلق ٹرمپ کے نقطۂ نظر تک ہی محدود نہیں، بلکہ دیگر مسائل پر بھی ان کا یہی طرزِ فکر نظر آتا ہے، چاہے وہ کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ تعلقات ہوں، گرین لینڈ پر امریکی دعوے ہوں، یا پھر فلسطینی مسئلے کے نام نہاد حل پر اس کا بھونڈا مؤقف ہو۔
انتہائی بلند و بانگ بیانات دینے کے باوجود، ٹرمپ کو بالکل اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو اعلان کئے تھے ان پر عمل درآمد کیسے کیا جائے۔بظاہر، ٹرمپ امریکی صدر کے کردار میں خود کو الجھا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر 19 فروری کو ٹرمپ نے زیلنسکی کو ایک غیرمنتخب شدہ ڈکٹیٹر قرار دے دیا، لیکن 27 فروری کو اس نے اپنی بےتکی وضاحتیں دیتے ہوئے کہا: "کیا میں نے واقعی ایسا کہا تھا؟ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں نے یہ کہا تھا۔ اب اگلا سوال کرو!"
یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹرمپ جس عہدے پر براجمان ہیں وہ اس کے لئےنہایت نااہل اور غیر موزوں ہیں۔
اقتدار میں آتے ہی، اس نے فوراً اعلان کیا کہ یوکرینی بحران کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر ختم کر دینے کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ چند مہینوں میں پورا کیا جائے گا۔
انہوں نے روس اور یوکرین دونوں فریقوں پر اپنا غیرمنصفانہ معاہدہ مسلط کر دیا۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے، میونخ سکیورٹی کانفرنس میں، یوکرین اور روس کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی، کیتھ کیلوگ نے امریکی شرائط پیش کیں، جو روس کے لئے انتہائی ناقابل قبول تھیں: جن میں یوکرین کو علاقائی رعایتیں دینا، روسی مسلح افواج میں اہلکاروں کی تعداد محدود کرنا، اور ایران، شمالی کوریا اور چین کے ساتھ کسی بھی قسم کے اتحاد کو ختم کرنا شامل ہے۔
یہی وہ وجہ تھی جس نے 18 فروری 2025ء کو ایریاد میں امریکی اور روسی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کو جنم دیا۔ کوئی بھی ذی شعور جو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی حتمی پریس کانفرنس کو غور سے سنے گا، تو سمجھ سکے گا کہ فریقین کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔
27 فروری کو، روسی صدارتی ترجمان دیمتری پیسکوف نے بیان دیا کہ روس مذاکراتی عمل میں کوئی علاقائی رعایت نہیں دے گا۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے، 15 فروری 2025ء کو یہ رپورٹ کیا گیا کہ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے امریکہ کی جانب سے تجویز کردہ نایاب زمینی دھاتوں کے معاہدے کے پہلے مسودے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے، ٹرمپ کی جانب سے یوکرین پر اور خاص طور پر زیلنسکی کے خلاف مختلف الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی اور یہاں تک کہ توہین آمیز الفاظ بھی سامنے آئے۔
بعد ازاں، میڈیا نے اس معاہدے کے دوسرے اور یہاں تک کہ تیسرے مسودے کی بھی اطلاع دی، جن پر یوکرین دستخط کرنے پر راضی ہو گیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کا لہجہ نرم پڑ گیا، اس نے "ڈکٹیٹر زیلنسکی" کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس لے لئے، اور یوں خود کو محض زبانی دعویٰ کرنے والا شخص ثابت کر دیا۔
یہ واقعات 28 فروری 2025ء کو امریکہ اور یوکرین کے صدور کے درمیان ہونے والی متنازعہ ملاقات سے پہلے پیش آئے۔
بظاہر، اس ملاقات سے پہلے ہی ٹرمپ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان زبردستی جنگ بندی نہ تو 24 گھنٹوں کے اندر ممکن ہے اور نہ ہی چند مہینوں میں۔ اسی لئے، اس نے زیلنسکی کو اشتعال دلانے کا فیصلہ کیا تاکہ بعد میں ساری ذمہ داری اس پر ڈال سکے اور اپنے حامیوں کے سامنے جواز پیش کر سکے، جو ٹرمپ کے ایک بڑے انتخابی وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں، جو کہ یوکرین میں جنگ کو جلدازجلد ختم کرنا تھا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ صدور کے درمیان ملاقاتیں عام طور پر اس وقت ہوتی ہیں جب معاہدے کی تمام شرائط پہلے سے طے پا چکی ہوں۔ اور مشترکہ پریس کانفرنسیں مذاکرات کے بعد ہوتی ہیں، نہ کہ اس سے پہلے، جیسا کہ 28 فروری کو ہوا۔ اس کے علاوہ، ایسے مواقع پر پریس کے سامنے ظاہری طور پر برابری برقرار رکھی جاتی ہے، یعنی صدر کے ساتھ صدر ہوتا ہے، نہ کہ صدر کے ساتھ صدر اور نائب صدر۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں، جنگ کے آغاز سے ہی زیلنسکی نے اصولی طور پر رسمی سوٹ نہیں پہنا اور ہمیشہ فوجی انداز کے لباس میں نظر آیا۔ حتیٰ کہ پریس کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی جب وائٹ ہاؤس کے ویسٹ ونگ کے داخلی دروازے پر زیلنسکی سے ملاقات ہوئی تو ٹرمپ نے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کے کپڑوں کا مذاق اڑاتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا: ”آج تو یہ ٹھیک سے تیار ہو کر آیا ہے“۔
صحافی برائن گلین، جنہیں "ٹرمپ کا پسندیدہ رپورٹر" کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے امریکی صدر کے ساتھ درجنوں انٹرویوز کیے اور مقدمات اور ریلیوں میں ان کے حق میں کوریج کی، انہوں نے بھی اوول آفس میں سوٹ کے بغیر زیلنسکی کی آمد پر سوالات کرنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، وہ بھی اس وقت جب ٹرمپ اور دیگر صحافی سامنے ہی موجود تھے۔
یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 28 فروری کو پیش آنے والا واقعہ دراصل ایک شاطرانہ اشتعال انگیزی تھی اور یوکرینی صدر کو عوامی سطح پر ایسے تذلیل کرنا تھا، جسے وہ برداشت نہ کر سکتا ہو۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ کی ذاتی خصلتوں جیسے تکبر، بدتمیزی اور اوچھے پن کے اثرات کے باوجود اس دن جو کچھ بھی ہوا، وہ درحقیقت روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے گزشتہ تین سالہ امریکی پالیسی کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یوکرین میں روسی جارحیت کا تسلسل امریکہ کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔
روس کے حوالے سے یہ ہے کہ امریکہ کو ایک شاندار موقع ملا ہے کہ وہ اپنے جوہری حریف کو روایتی جنگ کے ذریعے کمزور کر سکے۔ درحقیقت، ادراک اور فہم سے عاری اوردوراندیشی سے محروم روس نے دغا کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا، تا کہ یوکرین کی غیرجوہری فوجی طاقت کو حتمی طور پر مکمل ختم کر دے۔ پورے ایک سال میں یوکرین کے 60 کلومیٹر کے چوڑے محاذ پر روس کی پیش قدمی بمشکل 50 کلومیٹر تک ہی رہ سکی ہے۔ اور ان معمولی سی کامیابیوں کے بدلے، روس روزانہ کی بنیاد پر درجنوں فوجی ساز و سامان سے محروم ہو رہا ہے اور ساتھ ہی اپنی سرزمین پر یوکرینی حملوں کا سامنا بھی کر رہا ہے، جو اس کے اسٹریٹجک اثاثوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ جنگ یورپ کو بھی کمزور کر رہی ہے، کیونکہ اس جنگ نے یورپ کو روسی توانائی کے سستے وسائل سے محروم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی، یہ جنگ یورپی ممالک کو اپنے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ کرنے اور یورپی یونین میں پناہ لینے والے یوکرینی مہاجرین کی مدد کے لئے مزید وسائل مختص کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
اس جنگ نے روس کو چین کے لئے بھی ناپسندیدہ بنا دیا ہے، حالانکہ چین کو شدید ضرورت ہے کہ وہ روسی وسائل سے فائدہ اٹھائے۔ "یوکرین کے لئے اپنا امن منصوبہ" پیش کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد، چین نے "دیکھو اور انتظار کرو" کی حکمت عملی اپنا لی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے وہ ”دریا کے کنارے بیٹھ کر اپنے دشمنوں کی لاشیں بہتے دیکھنے" کا منتظر ہے۔
لہٰذا، ٹرمپ کی کوششوں کی ناکامی بالکل متوقع تھی، کیونکہ یہ یوریشین براعظم میں امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات سے متصادم تھی۔ کوئی بھی صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ ٹرمپ زیادہ مہارت کے ساتھ، کوئی بدمزگی یا عجلت کئے بغیر، اپنی تمام امن کوششوں کو بتدریج ختم کر سکتا تھا، تاکہ وہ اپنے ووٹرز، عالمی برادری اور سیاستدانوں کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھ سکتا۔
تاہم، ٹرمپ کے مغرور، اوچھے کاؤ بوائے کردار نے ایک بار پھر اس کے خلاف کام کیا۔ درحقیقت، یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ جب کسی امریکی صدر کو اپنے ہی اوول آفس میں اس قدر ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
بہرحال جو بھی ہو، آخرکار 28 فروری کے بعد، امریکہ کو یورپ کو روسی جارحیت کے سامنے تنہا چھوڑنے کا حقیقی موقع ملا، جس سے یورپ اس بحران میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے پر مجبور ہو گیا اور یہ بلا شبہ امریکہ کے مفاد میں ہے۔
زیلنسکی کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد، ٹرمپ نے یہ بیان دیا، ”وہ (زیلنسکی) تب واپس آ سکتا ہے جب وہ امن کے لئے تیار ہو“۔ اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا: ”ہم یا تو یہ جنگ ختم کر دیں گے یا پھر انہیں لڑنے دیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے“۔
فطری طور پر، امریکہ کی جانب سے یوکرین کے لئے مکمل حمایت کا خاتمہ متوقع نہیں ہے۔ زیلنسکی کے ساتھ متنازعہ ملاقات سے ایک ہی دن پہلے، ٹرمپ نے روس کے خلاف پابندیوں میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔ اس کے علاوہ، زیلنسکی کے ہمراہ یوکرین کے اعلیٰ حکام کی ایک پوری ٹیم بھی امریکہ پہنچی تھی، جس میں سکیورٹی ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل تھے، اور اوول آفس میں ہونے والے تنازعہ کے باوجود، ان اہلکاروں سے طے شدہ ملاقاتیں منسوخ نہیں کی گئیں۔
جہاں تک یورپ کے مؤقف کا تعلق ہے، اس کے رہنماؤں نے پہلے ہی زیلنسکی کے حق میں ایک وسیع اتحاد کے طور پر آواز بلند کر دی تھی اور ٹرمپ کے رویے کی مذمت کی تھی۔
یورپ اس صورتحال کو ایک موقع کے طور پر دیکھے گا اور یوکرینی بحران میں پیش قدمی کا موقع سمجھتے ہوئے اپنی مداخلت میں اضافہ کرے گا۔
چنانچہ، یورپی یونین یوکرین کو وسیع پیمانے پر ایک نئےمالی امدادی پیکج فراہم کرنے پر غور کرے گی، جس کی مالیت سینکڑوں ارب یورو ہو سکتی ہے۔ یہ معاملہ 06 مارچ بروز جمعرات کو ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔ یہ بات فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے 1 مارچ بروز ہفتہ، اخبار La Tribune کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔
چنانچہ، روس-یوکرین جنگ کی صورتحال امریکی مفادات کے مطابق آگے بڑھتی رہے گی۔
جہاں تک یوکرینی عوام کا تعلق ہے، ان کے لئے ایک بار پھر امریکہ کی مبینہ دغا بازی اور غداری عیاں ہو چکی ہے، کیونکہ اس نے یوکرین کو روس کی ظالمانہ جارحیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یوں، یوکرین کی خودمختاری، عوام اور وسائل امریکی اسٹریٹجک مفادات کے حصول کے لئے یوریشیائی خطے میں ایک سودے بازی کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔
تحریر: فاضل عمزائیف
یوکرین میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے سربراہ
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...