الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

دہشت گردی کے خلاف ایک اور آپریشن

 

خبر:

 

پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے ایک نئے فوجی آپریشن کے آغاز کی منظوری دے دی ہے جس کا نام ’عزم استحکام‘ ہے۔ اسلام آباد اور کابل میں موجود طالبان حکمرانوں کے مابین بڑھتے ہوئے تناؤ کے ماحول میں اس نئے فوجی منصوبے کا مقصد ملکی سلامتی کو لاحق خطرات اور افغانستان سے آنے والے مسلح جنگجوؤں پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ علاقائی تعاون کے ذریعے "دہشت گردوں" کو روکنے کی کوششوں کو "تیز ترین" کرے۔ (aljazeera.com)

 

 

تبصرہ :

 

پاکستان اور امریکہ نے آپس میں یہ مڑا تڑا رومانوی تعلق استوار کیا تھا، جو نائن الیون کے بعد ایک مکروہ تعلق میں تبدیل ہو گیا، جس میں دونوں کے اپنے الگ الگ مفادات ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان نے سن 2000 سے لے کر آج تک متعدد فوجی آپریشن شروع کیے جن میں آپریشن ردالفساد اور آپریشن ضرب عضب شامل ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم ماضی میں 1980 کی دہائی کے اوائل کو دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ آج کے ’دہشت گرد‘ کو اس وقت ایک جنگ لڑنے والے مجاہد کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔اور اس جنگ کو اسلام بمقابلہ کمیونزم کے طور پر پیش کیا گیا تھا، لہذا اس جنگ کے لیے پاکستانی عوام کی حمایت حاصل کرنا آسان تھا۔ چونکہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت ہے اور وہ خلافت کے خاتمے کے بعد سے دنیا بھر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاک فوج کی جانب سے افغان مزاحمت کی حمایت نے انہیں لوگوں کی نظروں میں ایک باعزت مقام عطا کیا۔ لوگوں نے خوشی خوشی اس جدوجہد میں پاکستان کے کردار کی حمایت کی۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی فوج نے امریکہ کی مکمل حمایت سے فوجی تربیت سے لے کر مادی امداد اور ہتھیاروں تک سب کچھ فراہم کیا، کیونکہ اس وقت کا مشن سوویت یونین کو شکست دینا تھا۔ 1988 تک، ہم نے دیکھا کہ سوویت فوجوں کا انخلاء شروع ہو گیا، جو افغانستان پر ایک طویل، خونی، اور بے نتیجہ سوویت قبضے کے خاتمے کے آغاز تھا۔ امریکہ کی واحد سپر پاور بننے کی خواہش اب خواب نہیں رہی تھی اور طاقت و اختیار رکھنے والےغداروں نے سوچا کہ انہیں دنیا کی واحد سپر پاور کی بقا کے لیے ناگزیر اور ضروری ہونا چاہیے۔ اس دور میں پاکستان اور افغانستان پر ایسے افراد کی حکومت تھی جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے اور امریکہ کو خوش کرنے کو ترجیح دی؛ بجائے اس کے کہ وہ اپنے عوام کی دیکھ بھال کرتے جو زندگی کے ہر شعبے میں زبوں حالی کا شکار تھے۔ 1989-2000 تک، افغانستان کو طاقت کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا جب مزاحمتی گروپوں نے کٹھ پتلی حکمرانوں کے سامنے ہار ماننے سے انکار کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملا عمر دائیں بازو کے اسلامی سوچ رکھنے والے لوگوں کے لیے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے اور ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ایک نئے دشمن کا اعلان ہوا اور نائن الیون کے بعد امریکہ باضابطہ طور پر افغانستان میں داخل ہوگیا۔ اور پاکستان کی قیادت نے خوشی خوشی وہاں امریکہ کے قدم جمانے کے لیے امدادی چوکی کا کردار ادا کیا۔ 

 

سن دو ہزار ایک سے لے کر اب تک کے پی کے میں 'دہشت گردوں' کو نشانہ بنانے کے لیے (مبینہ طور پر) پندرہ آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کارروائیوں کی منصوبہ بندی ایسے علاقوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی تھی جو مشکل ترین سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً آپریشن راہ راست اور راہ حق سوات کے علاقے میں، آپریشن شیردل باجوڑ میں اور راہ نجات جنوبی وزیرستان ایجنسی میں کیے گئے۔ زیادہ وسیع محاذ پر دو بڑے آپریشن ضرب عضب تھے، جو شمالی وزیرستان میں شروع ہوئے اور پھر اسے دوسرے علاقوں تک پھیلا دیا گیا، اس کے بعد ردالفساد شروع ہوا جو دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پر حملہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن تھا۔ جو بعد میں پورے پاکستان میں پھیلا دیا گیا۔ اس 16ویں آپریشن کے اعلان کے ساتھ، ہمیں اس بات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ان 23 سالوں میں ‘اندرونی دشمن’ سے لڑ کر کیا حاصل کیا ہے۔

 

بگڑتی ہوئی جغرافیائی و سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ اب چین بھی طاقت کے توازن کا حصہ بن رہا ہے۔ اس عنصر کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ پس حکومت اب دو کشتیوں میں سوار ہے اور دونوں طاقتوں کو ایک ہی وقت میں خوش رکھنا ممکن نہیں ہے۔ مارچ 2024 میں پانچ چینی شہریوں کی ہلاکت کے بعد، پاکستان کو چینی کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے چین کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ تاکہ ان کو مستقبل میں ایسے حملوں سےبچایا جاسکے، جو پاکستانی فوج کے بقول ایک افغان شہری نے کیے تھے اور افغانستان میں مقیم دہشت گردوں نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔

 

اگر ہم اسلام میں جنگوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کا مقصد کتنا واضح ہوا کرتا تھا، کس قدر نپی تلی چالیں چلی جاتی تھیں اور ان جنگی مہمات کا نتیجہ کتنا شفاف ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج اس اعلان کردہ اور ماضی میں کئے گئے آپریشنز میں، ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے جبکہ کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ ایک فوج جو دنیا کی 145 افواج میں سے سب سے بڑی 10 طاقتور ترین افواج میں شامل ہے، اپنی ہی آبادی کے ناقص اسلحہ سے لیس، غیر تربیت یافتہ حصے سے لڑتے ہوئے مسلسل ہار رہی ہے اور نقصان اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کی فوج نے سوویت یونین کو نکالنے میں افغانوں کی مدد کرنے اور بھارت کے خلاف کشمیر جہاد کی حمایت کرنے کے نتیجے میں جو عزت و وقار حاصل کیا تھا، وہ اس تبدیلی کے درمیان کہیں کھو گیا۔ بصیرت والے دور اندیش لوگ دیکھ سکتے تھے کہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ وہ لوگ جو ہمارے ساتھ ایمان میں شریک ہیں، وہ لوگ جنہیں اللہ تعالی نے ہمارا بھائی قرار دیا ہے اور ان کا خون ہم پر حرام کیا ہے۔

 

اس وقت مسلمانوں کو جس عظیم ترین بحران کا سامنا ہے وہ غزہ کے عوام کا مستقل جاری قتل عام ہے۔ سچ تو یہ ہے فلسطین کسی بھی مسلمان فوج کے لیے میدان جنگ ہونا چاہیے تھا۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور نادیدہ بحران اہم نہیں۔ جبکہ یہاں ہماری قیادتیں دشمن کے لکھے اور ہدایت کردہ اسکرپٹ پر پرفارم کرنے میں مصروف ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ؛ 

 

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، قالوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، هذا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، فَكيفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ قالَ: تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ.

"اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے روک دو (یہی اس کی مدد ہے)۔" صحیح البخاری 

 

باشعور مسلمانوں کی حیثیت سے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں اور اپنی فوج میں موجود سپاہیوں اور افسران سے پوچھیں کہ وہ کس کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں، کیونکہ لڑائی کا یہی عمل ان کے لیے جنت یا جہنم کا راستہ بنا سکتا ہے۔ مزاحمتی گروہوں کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ مسلمان ہیں۔ انہیں ان کے اپنے ہی لوگوں نے نقصان پہنچایا ہے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بھی افواج میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نقصان پہنچایا ہو۔ ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اصل جنگ لڑیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم بلند کریں۔ اسی پرچم کے نیچے ہمیں حقیقی قیادت میسر آئے گی جو اس دنیا کے تمام مسلمانوں کی حفاظت کرے گی اور نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کرے گی۔

 

تحریر کردہ برائے مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر۔

مصنفہ : اخلاق جہاں 

Last modified onمنگل, 09 جولائی 2024 20:37

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک