الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

افغانستان کے حکمران کو قطر کی ثالثی سے مکّر، فریب اور سازشوں کے سوا کچھ نہیں حاصل نہیں ہو گا!

 

خبر:

 

آنے والے اتوار کو، قطر میں، افغان طالبان تحریک کے حکام بین الاقوامی نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔ یہ مذاکرات اقوام متحدہ کی جانب سے شرکت کے عمل میں ایک اہم قدم کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کے گروہوں نے افغان خواتین کو اس عمل سے باہر رکھنے پر اس کی مذمت کی ہے۔ 30 جون اور 1 جولائی کو، دوحہ میں اقوام متحدہ کے علاوہ تقریباً 25 نمائندے، جن میں امریکہ کے نمائندے اور طالبان کا وفد بھی شامل ہے، ملاقات کریں گے۔ اس اجلاس کے ایجنڈے میں معاشی مسائل اور منشیات کی روک تھام شامل ہیں۔ تاہم، سول سوسائٹی گروپس، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو اس مذاکرات سے باہر رکھنے کا فیصلہ کافی تنازع کا باعث بن رہا ہے۔ (النھار اخبار ، 28/06/2024)

 

تبصرہ:

 

اس خبر کے بارے میں دو اہم نکات پر توجہ دینا ضروری ہے:

 

پہلا: اسلام کا سماجی نظام مغربی سماجی نظام سے مختلف ہےجسے مغرب اقوام متحدہ کے ذریعے فروغ دے رہا ہے۔ 

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب اور زندگی کے بارے میں اس سے جنم لینے والے تصورات، بشمول مرد اور عورت کے کردار کے بارے میں اس کے نظریات، کے سامنے واحد رکاوٹ اسلام ہے۔ اس لیے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالامار اور اقوام متحدہ کے سیاسی اور امن سازی کے امور کے سیکریٹری جنرل کی معاون روزمیری ڈی کارلو کا طالبان اور افغان عوام کے بارے میں تبصرہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ جبکہ مغرب اپنی فکری و اخلاقی گمراہی میں اس انتہا تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے نظریات کے محافظ کتے، بلی اور انسان اور مرد اور عورت کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہیں، یہاں تک کہ "نسل پرستی اور امتیازی سلوک سے بچنے" کے نام پر ناموں اور ان کی معنویت میں بھی فرق نہیں کر پا رہے۔ اسلام نے ان عقلی سچائیوں کو تسلیم کیا ہے جن تک انسان اپنی فطری صلاحیتوں کے ذریعے حقیقت سے ہم آہنگی کے لیے پہنچتا ہے۔ تاہم، اسلام یہیں پر رُکا نہیں ہے بلکہ اس نے ان واقعات کے بارے میں احکامات بھی جاری کیے ہیں، جو العلیم، الخبیر اور کائنات، انسان اور زندگی کے خالق کی طرف سے جاری شدہ ہیں۔ مغرب اور اس کا نظام ہر چھوٹی بڑی چیز میں مرد اور عورت کے درمیان اختلاط کو ضروری سمجھتا ہے، تاہم وہ اس اخلاقی انتشار کو بھول جاتا ہے جو جنسی جبلت کے بے قابو رہنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر سے اور اپنے نبی حضرت محمد ﷺ پر نازل کیے گئے دین کے ذریعے سے اس کے برعکس حکم جاری کیا ہے۔

 

دوسرا: افغانستان کے حکمرانوں کو اقوام متحدہ کی، قطر کے ذریعے، انہیں اپنے احکامات کے تابع کرنے کی کوششوں کے خلاف کیا کرنا چاہیے؟

بلاشبہ قطر ان ایجنٹ ریاستوں میں سے ہے جو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں افغانستان کے حکمرانوں اور بڑی طاقتوں کے نمائندوں کے درمیان ملاقاتوں کی میزبانی تو کرتا ہے لیکن کوئی آزاد عالمی پیغام نہیں رکھتا بلکہ کسی اور ملک کے ماتحت ہے۔ اس طرح، قطر اُس ریاست اور بین الاقوامی برادری کے مفادات کی خدمت کر رہا ہے جو یہ کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان کے حکمران بین الاقوامی سطح پر اسلامی قوانین سے دستبردار ہوں اور بڑی طاقتوں کی خواہشات کے سامنے جھک جائیں، چاہے اِن خواہشات کا مقصد اُن طاقتوں کے اقتصادی مفادات کو پورا کرنا ہو، یا عالمی تنازعات کے انتظام سے اسلامی منصوبے کو نکالنا اور اس کی جگہ بین الاقوامی قانون اور سرمایہ دار کمپنیوں کی خواہشات کو لانا ہو، یا پھر "سول سوسائٹی" اور عورتوں کے لیے کام کرنے والی تحریکوں کے مطالبات کے مطابق قوانین اور ثقافت مسلط کرنا ہو، جو اسلامی عقائد اور اس سے نکلنے والے نظام زندگی کے خلاف ہیں۔ افغانستان کے حکمرانوں کے لیے قطر اور اس کے پشت پناہوں کی پیروی کرنا غلط ہے۔ بلکہ انہیں دنیا کو اس سمت لے جانا چاہیے جس سمت اسلام لے کر جانا چاہتا ہے، چاہے وہ عالمی مسائل کی تشخیص اور ان کی حقیقتوں اور مغربی ممالک کی حرص و خواہشات کے کردار کو بے نقاب کرنا ہو، یا شریعت کے نقطہ نظر سے ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہو۔

 

اس لیے افغانستان کے حکمرانوں کو اقوام متحدہ کے نظام کو ہلا کر رکھنا چاہیے اور اسے سنجیدگی سے مفلوج کرنا چاہیے کیونکہ یہ جائز نہیں ہے کہ (اسلام کے علاؤہ) کوئی عالمی قانون نافذ ہو۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک کہ اسلامی ممالک کے عوام کے ساتھ سنجیدہ اور گہرے تعلقات قائم نہ کیے جائیں، نہ کہ ان کے موجودہ حکمرانوں کے ساتھ جو ان کی اتھارٹی کو غاصب کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ ہر اسلامی ملک میں ہر اسلامی تحریک کے ساتھ تعلقات قائم کر کے کیا جا سکتا ہے جو فطری طور پر اس کام میں فعال ہو۔ اس کے لیے ہر ایک کے ذریعے سے امت کو اپنے اہداف کے بارے میں مخاطب کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ وہ اسلام کے لیے ایک عالمی سوچ رکھتے ہیں، اور وہ ہر اس مخلص فریق کے ساتھ تعاون کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو زمین پر اسلام کی حکومت چاہتا ہے، اور وہ اس مقصد کو عملاً حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہے اس پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا گیا

نذر جمال

 

Last modified onمنگل, 09 جولائی 2024 20:03

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک