الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

غدار مسلم حکومتوں کی مدد سے ہی قتل وغارت گری سے بھرپورغزہ کے چھ ماہ !

 

خبر:

 

غزہ کے مسلمان صیہونی وجود کے ہاتھوں چھ ماہ کی مسلسل بمباری، نسل کشی، اور ایک وحشیانہ محاصرے کو جھیل رہے ہیں جس نے ناقابل بیان سطح کے مصائب کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بھیانک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 34,000 سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا ہے،جس میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ایک کے بعدایک سفاکانہ قتل عام کا ارتکاب کیا گیا ہے، جس میں الشفاء ہسپتال میں 300 سے زائد افراد کو شہید کرنے کا سانحہ بھی شامل ہے۔ غزہ کے 70 فیصد سے زیادہ گھر وں کو شدید نقصان پہنچا ہے یا وہ مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اور غزہ کے لوگ خوراک، ادویات، صاف پانی اور ایندھن کی ناکہ بندی کے نتیجے میں بھوک، پانی کی کمی اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ صیہونی وجود نے انسانیت کے خلاف ہر قسم کے وحشیانہ جرم کا ارتکاب کیا ہے، اور انسانی حقوق کے ہر بین الاقوامی قانون کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے، جس میں انہیں مغربی استعماری حکومتوں اور رہنماؤں کی حمایت کے ساتھ ساتھ مسلم علاقوں کے حکمرانوں اور حکومتوں کی جانب سے اس خون ریزی کو روکنے  کے حوالے سے مکمل بے عملی کی صورت میں حمایت بھی شامل ہے۔

 

 

تبصرہ:

 

          جو کچھ بھی غزہ فلسطین میں ہوا اور برپا ہورہا ہے ، وہ کبھی ممکن نہ ہوسکتا تھا اگر مسلم علاقوں کی بزدل قیادتیں یہودی وجود کی سہولت کاری نہ کرتیں، جو کہ وہ ہمیشہ سے کرتی آئی ہیں،  اور وہی فلسطین کی آزادی میں بڑی رکاوٹ کے طور پر کھڑے رہے ہیں۔ اس اجتماعی قتل عام کے دوران، ان حکومتوں نے نسل کشی کا ارتکاب کرنے والے صیہونی وجود کے ساتھ اپنے تعلقات، امن معاہدوں، نارملائزیشن ، تجارتی تعلقات اور تعاون کو جاری رکھا ہوا ہے، فلسطینی مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کے لیے مسلم دنیا کے کسی ایک حکمران نے بھی انگلی اٹھانے تک کی کوشش نہیں کی ہے۔ ترک صدر اردگان نے صیہونی وجود کے خلاف پرجوش تقاریر اور بیان بازی ضرور کی لیکن صیہونی وجود کی ضرورت کا 40 فیصد تیل ترکی کی سیہان بندرگاہ (Ceyhan port)سے ہی گزر کر جارہا ہے، جو صیہونی وجود کی جنگی مشینری کو مسلسل حرکت میں رکھنے کا باعث ہے، اور اسے نسل کشی کی مہم کو جاری رکھنے کے قابل بنا رہا ہے۔ مزید برآں، الہان ازگل، جوبین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور ترکی کے کسا ڈالگا(Kisa Dalga) نیوز پورٹل کے کالم نگار ہیں، انہوں نے کہا، "ترکی ملاتیا(Malatya) میں Kurecikریڈار اسٹیشن کو کام کرنے سے روک سکتا ہے، جو نیٹو کے میزائل دفاعی نظام کے لیے اہم ہے، اور جہاں تک ہم جانتے ہیں، یہ اسرائیل کی فضائی حدود کی بھی حفاظت کرتا ہے"، اس کے باوجود حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ترکی کی قیادت نےبھی اس سفاک یہودی وجود کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کی حکومتوں نے امریکہ کو اپنی سرزمین میں فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے صیہونی وجود کو خونریزی کرنے اور اپنے قبضے کو جاری رکھنے کے لیے تحفظ فراہم کرنے یا ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

 

          اردن اور مصر نے نہ صرف غاصب یہودی وجودکے ساتھ اپنے ذلت آمیز امن معاہدوں کو برقرار رکھا ہوا ہے، جبکہ وہ نہایت بے شرمی کے ساتھ صیہونی وجود کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں کو خوراک اور دیگر ضروری اشیاء بھیجنے کے لیے اجازت کا انتظار کرتے ہیں۔ ان حکومتوں نے ہی غزہ میں لوگوں کا محاصرے کرنے میں یہودی وجود کی مدد کی ہے،اور صیہونیوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ غزہ میں اشیائے ضرورت کو داخل ہونے کی اجازت دے سکیں، بجائے اس کے کہ وہ یہودی قبضے کے نتیجے سے پیدا ہونے  والی سرحدوں اور کراسنگ کو مسمار کر تے اور غزہ کی پٹی کو انسانی امداد سے بھر دیتے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان قاتل یہودی وجود کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات اور اقتصادی، سیکورٹی، انٹیلی جنس شیئرنگ اور فوجی تعاون کی سہولت فراہم کرنے والے ابراہیم معاہدے پر قائم ہیں۔ یہاں تک کہ ان گزشتہ چھ مہینوں کے دوران، متحدہ عرب امارات نے یمن کے حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر کی ناکہ بندی پر قابو پانے کے لیے ایک نیا متبادل زمینی راستہ بناتے ہوئے، دبئی سے تازہ خوراک سے لدی تجارتی کھیپ سعودی عرب اور اردن کے راستے صیہونی وجود کو بھیجی ہے۔ اردن کی حکومت نے نسل کشی کرنےوالے قابض یہودی وجود کو تازہ پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات جاری رکھنے کی بھی اجازت دی ہوئی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ غزہ میں وحشیانہ محاصرے کی وجہ سے فلسطینی بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ دریں اثنا، سعودی عرب کی حکومت اب بھی اس خون کے پیاسے قابض وجود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کا اظہار کررہی ہے۔ جنوری میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر نے تصدیق کی تھی کہ ان کے ملک کے رہنماؤں کے درمیان صیہونی وجود کے ساتھ معاہدے کے لیے "بالکل دلچسپی" موجود ہے، باوجود اس کے کہ وہ خود کہتا ہے کہ ہلاکتوں کے اعدادوشمار "افسوسناک" اور غزہ پر "انسانیت کی ناکامی" ہے۔

 

فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ غداری کے اس مجرمانہ درجے کے ساتھ ساتھ، مسلم دنیا کی حکومتیں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو ذبح ہونے سے بچانے کے لیے ایک بھی سپاہی بھیجنے میں ناکام رہی ہیں۔ بلکہ، انہوں نے اپنی فوجوں کو اپنی امت کے دفاع کے لیے آگے بڑھنے سے روک دیا ہے، اور بجائے اس کے کہ اس بابرکت سرزمین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اپنی افواج کو حرکت میں لایا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کو اس سفاک قبضے سے آزاد کرانے کا حکم دیا ہے، جبکہ ان حکومتوں کی جانب سے اپنی فوج میں موجودغصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ جنگ بندی اور قتل و غارت کو ختم کرنے کے لیے صیہونی وجود کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، تا کہ جنگ بندی کی جائے اور قتل عام کا خاتمہ ہو۔ سوال تو یہ ہے کہ اس خون کی ہولی کو ختم کرنے کے لیے کس بات چیت کی ضرورت ہے، جبکہ فلسطین میں مسلمان افواج کی محض موجودگی ہی، آئی ڈی ایف کو دہشت کے عالم میں بھاگنے پر مجبور کردے گی؟!!!

 

مسلم علاقوں کی حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سےمقدس سرزمین فلسطین، امت مسلمہ اور اللہ عزوجل کے دین سے غداری کا پیمانہ ناقابل معافی ہے۔ ان میں سے ہر ایک بزدل اور غدار ہے! شام، میانمار، کشمیر، مشرقی ترکستان اور دیگر جگہوں کے مسلمانوں کو قتل و غارت گری سے بچانے میں ناکامی کی وراثت پر عمل کرتے ہوئے وہ غزہ اور بقیہ فلسطین میں خاموشی سے خون بہتا دیکھ رہے ہیں۔ غاصبانہ قبضے اور اس کے جرائم کے تئیں مسلمانوں کے غصے اور جذبات اور ان حکمرانوں کے طرزِعمل میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ امت مسلم افواج کو حرکت میں لانے اور پورے فلسطین کو آزاد کرانے کا مطالبہ کررہی ہےجبکہ مسلم دنیا کے حکمران صیہونی وجود کے ساتھ معمول کے مطابق کاروبار میں مصروف ہیں۔ یہ حکمران کسی بھی طرح مسلمانوں کے مفادات یا اسلامی عقائد کی نمائندگی نہیں کرتے اور یہ اس امت پر ایک دن بھی حکومت کرنے کے لائق نہیں ہیں۔

 

نبی کریم ﷺ نے فرمایا،

 

«سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ  وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْططِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ» قِيلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ: «الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»

"لوگوں پر مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں 'رويبضة'بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا'رويبضة'کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا'حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا'"۔

 

          یہ واضح ہے کہ جب تک یہ مغرب زدہ اور ان کےحمایت یافتہ حکمران اور حکومتیں برقرار رہیں گی، فلسطین کبھی آزاد نہیں ہوگا۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جو مغربی استعماری حکومتیں یہودی وجود کےقبضے کو برقرار رکھنے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ لہٰذا صرف یہ مطالبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس نسل کشی کا خاتمہ کیا جائے اور فلسطین کو آزاد کرایا جائے بلکہ مسلمانوں کی سرزمینوں کو بھی ان حکومتوں اور حکمرانوں سے آزاد کرانا چاہیے جو صیہونی وجود کو قائم رکھے ہوئے ہیں، اور ان کی جگہ خلافت کی اسلامی قیادت لائی جائے جو نبوت کے نقش  قدم پر قائم ہو اور جو حقیقی طور پر مسلمانوں اور اسلام کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے اور جو اپنی فوج کو سرزمین فلسطین کے ایک ایک انچ کو آزاد کرانے کے لیے متحرک کرے گی۔

 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا۔

عاصمہ صدیق

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کی رکن

Last modified onپیر, 22 اپریل 2024 00:42

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک