الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ

 

الواعی رسالہ شمارہ 421، صفر 1443ھ، ستمبر 2021 عیسوی

 

(عربی سے ترجمہ).

 

 

حاطب بن ابی بلتعہ بن عمرو بن عمیر بن سلمہ الخمی رضی اللہ عنہ ایک  بدری صحابی تھے۔ وہ اسلام میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ سعد بن خولی کےہمراہ،جو حطیب کے حلیف تھے، یثرب کی طرف ہجرت کی۔ وہ منذر بن محمد بن عقبہ کے گھر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب اور رحیلہ بن خالد کے درمیان بھائی چارہ کر دیا۔ حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان تمام جنگوں میں حصہ لیا تھا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی تھی۔ آپ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، معاہدہ حدیبیہ اور مکہ کی فتح دیکھی۔ نیز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چھٹے سال میں آپ کو مصر کے بادشاہ مقوقس کے نام ایک خط کے ساتھ بھیجا، جس میں اسے اسلام کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ مقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے کے طور پر ماریہ اور ان کی بہن سیرین کو واپس کر دیا۔

 

 

بدر کے دن جب حاطب بن ابی بلتعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا کہ "یہ قریش کا قافلہ ہے جس کے پاس ان کا مال ہے، تم ان کی طرف بڑھو، اللہ اسے تمہاری طرف منتقل کرے"۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے پکار پر لبیک کہا اور اپنی تلوار نکال لی۔ جب بدر میں دونوں گروہوں کا  آمنا سامنا ہوا تو حاطب کو اچھی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ احد کے دن حاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے جب لوگ بے نقاب ہوئے۔ آپ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع شروع کر دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں جان دینے کا عہد کیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے جنگ خندق کا وقت بھی دیکھا۔

 

 

ان کے بارے میں حدیبیہ کے دن کے حوالے سے ایک روایت ہے: محمد بن اسحاق کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف کوچ کرنے کے لیے جمع ہوئے تو حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش کو ایک خط لکھا، جس میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش قدمی کرنے کی اطلاع دی۔ حاطب نے پھر وہ خط ایک عورت کو دیا، محمد بن جعفر نے دعویٰ کیا کہ وہ عورت ایک  حجام تھی، اور دوسروں نے مجھ سے (ابن اسحاق) دعویٰ کیا کہ وہ سارہ ہیں، جو بنو عبدالمطلب میں سے بعض کی حلیف تھی۔ حاطب نے اسے قریش تک پہنچانے کے لیے وہ خط دیا۔ اس نے وہ خط اپنے بالوں میں ڈالا اور پھر بالوں کو ڈھانپ کر اسے چھپا لیا اور پھر وہ چلی گئی۔ حاطب نے جو کچھ کیا تھا اس کی خبر وحی کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

 

بخاری نے عبید اللہ بن ابی رافع سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو یہ کہتے ہوئے کہیں بھیجا تھا ، انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا " جاؤ یہاں تک کہ تم لوگ روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا"۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(يا حاطب ما هذا؟)" اے حاطب! یہ کیا  ہے؟" انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا ‘ لیکن ان سے میرا کوئی رشتہ ناتہ  نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں  رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: (أما إنه قد صَدَقكم) " حاطب نے تم سے سچ کہا ہے"۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: د شهد بدرًا، وما يدريك لعل الله قد اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ" یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اورکیا معلوم، اللہ تعالیٰ نے مجاہدینِ بدر  پر نظرِ کرم کی ہو اور کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں"۔. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ممتحنہ نازل فرمائی:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ تُلۡقُونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُواْ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلۡحَقِّ يُخۡرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمۡ أَن تُؤۡمِنُواْ بِٱللَّهِ رَبِّكُمۡ إِن كُنتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَٰدٗا فِي سَبِيلِي وَٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِيۚ تُسِرُّونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَأَنَا۠ أَعۡلَمُ بِمَآ أَخۡفَيۡتُمۡ وَمَآ أَعۡلَنتُمۡۚ وَمَن يَفۡعَلۡهُ مِنكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ

"اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو سچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہو چکے ہیں، رسول کو اور تمہیں ا س بات پر نکالتے ہیں کہ تم الله اپنے رب پر ایمان لائے ہو، اگر تم جہاد کے لیے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہوتو ان کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستے سے بہک گیا"  [سورۃ ممتحنہ:1]

.

 

سہُیلی نے کہا کہ حاطب کے  خط میں لکھا تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر کے ساتھ تمہاری طرف  آرہے ہیں جیسے ایک رات جو طوفان کی طرح چلتی ہے۔ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلےبھی  تمہاری طرف کوچ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں تم پر فتح دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہےوہ اسے پورا کرے گا۔ ابن سلام کی تفسیر میں ہے کہ حاطب نے لکھا تھا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کوچ کر لیا ہے، شاید یہ آپ کی طرف ہو یا کسی اور کی طرف بھی  ہوسکتا ہے، لہٰذا ہوشیار رہو۔

 

 

حاطب بن ابی بلتعہ، مصر کے حاکم مقوقس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی

 

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ حدیبیہ کا معاہدہ کر لیا تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہیں رہے۔ اللہ عزوجل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام پہنچانے کا حکم دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بادشاہوں اور حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے۔ آپ نے قیصر، خسرو اور نجاشی کے پاس قاصد بھیجے... جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أيها الناس، أيُّكم ينطلق بكتابي هذا إلى صاحب مصر وأجره على الله؟  "اے لوگو! تم میں سے کون میرا خط لے کر مصر کے حاکم کے پاس جائے گا، اس کا اجر اللہ کےذمے ہے؟ "۔حاطب بن ابی بلتعہ نے اچھل کر کہا: میں ہوں یا رسول اللہ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بارك الله فيك يا حاطب "اے حاطب، اللہ تمہیں برکت دے"۔ حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر مصر کا سفر  شروع کیا۔ وہ مصر کا راستہ جانتے تھے، کیونکہ وہ پہلے بھی کئی بار تجارت کی غرض سے مصر کا سفر کر چکے تھے۔ خط جوریح بن مینا کو بھیجا گیا جو مصری تھا۔ تاہم،وہ ہرقولیس کی طرف سے مصر پر حکومت کرتا تھا۔ وہ ٹیکس وصول کر کے قسطنطنیہ بھیجتا تھا۔ اسکندریہ اس کا دارالحکومت تھا۔

 

حاطب بن ابی بلتعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مقوقس کو پیش کیا۔ خط میں لکھا تھا: بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد بن عبد الله إلى المقوقس عظيم القبط، سلام على من اتبع الهدى... أما بعد، فإني أدعوك بدعاية الإسلام، أسلم تسلم يؤتك الله أجرك مرتين، فإن تولَّيْتَ فإنَّما عليك إثم القبط، (قُلۡ يَٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ كَلِمَةٖ سَوَآءِۢ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَعۡبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهِۦ شَيۡ‍ٔٗا وَلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِۚ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَقُولُواْ ٱشۡهَدُواْ بِأَنَّا مُسۡلِمُون )"اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ محمدبن عبداللہ کی طرف سے، مصر کے عظیم قبطی مقوقس کو: سلام ہو اس پر جو ہدایت یافتہ راستے پر چلے! اور اس کے بعد میں تمہیں اسلام کی دعوت کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام قبول کرو اور محفوظ رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اجر کو دوگنا کر دے گا۔ لیکن اگر تم منہ موڑو گے تو مصریوں کا قصور تم پر ہو گا۔ 'کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں' [آلِ عمران 3:64]"۔

 

 

مقوقس نے حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف دیکھا اور پوچھا:" اگر وہ نبی ہے تو اسے کس چیز نے روکا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف (اللہ سے) دعا کریں جنہوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے اس كی سرزمین سے نکال دیا؟"۔ حاطب خاموش رہے اور جوریح بن مینا (مقوقس) نے سوال دہرایا، جب اس نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کی رضامندی دیکھی اور پوچھا:" اسے کس چیز نے روکا کہ اگر وہ نبی ہیں تو مخالفت کرنے والوں کے خلاف پکاریں،جنھوں نے  اسے اس کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں نکال دیا، تاکہ ان پر قابو پا سکیں؟"۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے جواب دیا:" کیا تم گواہ ہو کہ عیسیٰ بن مریمؑ اللہ کے رسول ہیں؟"۔ مقوقس نے کہا:" ہاں"۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے کہا:" تب کیا معاملہ تھا جب ان کی قوم انھیں سولی پر چڑھانا چاہتی تھی؟ انھوں نے اللہ سے ان كے خلاف دعا نہ كی یہاں تك كہ اللہ نے ان كو اٹھا لیا"۔ مقوقس نے تعریف کے ساتھ سر ہلایا اور کہا:" شاباش، آپ عقلمند ہیں۔ اوریہ  پیغام عقلمندوں کی طرف سے ہے"۔

 

 

حاطب بن ابی بلتعہ نے كہا:" تم سے پہلے ایک شخص تھا جس نے اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہا، تو اللہ نے اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب دیا۔ آپ کو اس کی مثال پر دھیان دینا چاہیے تاکہ آپ خود بھی عبرت کی کہانی نہ بن جائیں"۔ حاطب کی مراد فرعون تھا جو موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ چنانچہ کلیم اللہ (موسیٰؑ) اور بنو اسرائیل فتح یاب ہوئے اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔ مقوقس نے حیرانی سے حاطب کی طرف دیکھا اور وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں میں سوال ابھرے: اس عربی کو اتنا علم کہاں سے ملا؟ چنانچہ حاطب نے مزید کہا: "یہ نبی لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ ان کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں وہ قریش ہیں، ان کی سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی ہیں اور جو ان کے قریب ترین ہیں وہ عیسائی ہیں یعنی وہ جو ان کی نبوت پر ایمان لانے والے ہیں۔ میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) محمدﷺ کی بشارت لے کر آئے تھے اور یہ اس سے بالكل مختلف نہیں ہے کہ موسیٰؑ نے عیسیٰؑ کی بشارت دی تھی۔ ہماری آپ کو قرآن کی دعوت ایسے ہی ہے جیسے آپ تورات والوں کو انجیل کی طرف بلا رہے ہیں"۔

 

 

مقوقس نے کہا: "میں نے اس نبی کے بارے میں سوچا ہے۔ وہ دنیا کو ایک طرف چھوڑنے کی تبلیغ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اچھی چیز سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ میں اسے گمراہ کرنے والا  کوئی جادوگر یا کوئی    جھوٹا جادوگر نہیں سمجھتا۔ میں اس میں نبوت کی نشانیاں دیکھتا ہوں جو پوشیدہ رازوں کی خبر دیتا ہے۔ لیکن مجھے غور کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا"۔ اس کے بعد، مقوقس نے ایک خط لکھا جس میں لکھا تھا: "اللہ کے نام سے، جو سب سے نہایت رحم کرنے والا ہے، قبطی حاکم مقوقس کی طرف سے عبداللہ کے بیٹے محمد کی جانب: السلام علیکم۔ اس کے بعد... میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ نے مجھے کس چیز کی دعوت دی ہے! میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک رسول آنے والا ہے۔ لیکن میں نے سوچا تھا کہ وہ شام  میں نظر آئے گا۔ میں نے آپ کے ایلچی کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے۔ اور میں آپ کے پاس دو غلام بھیج رہا ہوں جو قبطیوں کے پاس سب سے زیادہ عزت دار ہیں، اور میں آپ کو سواری کے لیے ایک خچر دے رہا ہوں۔ آپ پر سلامتی ہو"۔

 

 

حاطب کی وفات مدینہ منورہ میں 30 ہجری میں ہوئی جب ان کی عمر 65 سال تھی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ حاطب جہنم میں نہیں جائے گا۔ حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاطب کی شکایت کرنے آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہﷺ! حاطب یقیناً جہنم میں جائے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كَذَبْتَ لاَ يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ "تم نے جھوٹ بولا۔ وہ یقیناً جہنم میں نہیں جائے گا، کیونکہ اس نے بدر اور حدیبیہ دیکھے ہیں"(مسلم)۔حاطب سے رسول اللہ ﷺ كی ایك حدیث بھی روایت ہوئی ہے۔ یہ حدیث ان کے دو بیٹوں عبدالرحمٰن بن حاطب، یحییٰ بن حاطب اور عروہ بن زبیر نے روایت کی ہے۔

 

بسم الله الرحمن الرحيم

حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ

الواعی رسالہ شمارہ 421، صفر 1443ھ، ستمبر 2021 عیسوی

(عربی سے ترجمہ).

حاطب بن ابی بلتعہ بن عمرو بن عمیر بن سلمہ الخمی رضی اللہ عنہ ایک  بدری صحابی تھے۔ وہ اسلام میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ سعد بن خولی کےہمراہ،جو حطیب کے حلیف تھے، یثرب کی طرف ہجرت کی۔ وہ منذر بن محمد بن عقبہ کے گھر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب اور رحیلہ بن خالد کے درمیان بھائی چارہ کر دیا۔ حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان تمام جنگوں میں حصہ لیا تھا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی تھی۔ آپ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق، معاہدہ حدیبیہ اور مکہ کی فتح دیکھی۔ نیز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے چھٹے سال میں آپ کو مصر کے بادشاہ مقوقس کے نام ایک خط کے ساتھ بھیجا، جس میں اسے اسلام کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ مقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے کے طور پر ماریہ اور ان کی بہن سیرین کو واپس کر دیا۔

بدر کے دن جب حاطب بن ابی بلتعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا کہ "یہ قریش کا قافلہ ہے جس کے پاس ان کا مال ہے، تم ان کی طرف بڑھو، اللہ اسے تمہاری طرف منتقل کرے"۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے پکار پر لبیک کہا اور اپنی تلوار نکال لی۔ جب بدر میں دونوں گروہوں کا  آمنا سامنا ہوا تو حاطب کو اچھی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ احد کے دن حاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے جب لوگ بے نقاب ہوئے۔ آپ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع شروع کر دیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں جان دینے کا عہد کیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے جنگ خندق کا وقت بھی دیکھا۔

ان کے بارے میں حدیبیہ کے دن کے حوالے سے ایک روایت ہے: محمد بن اسحاق کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف کوچ کرنے کے لیے جمع ہوئے تو حاطب بن ابی بلتعہ نے قریش کو ایک خط لکھا، جس میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش قدمی کرنے کی اطلاع دی۔ حاطب نے پھر وہ خط ایک عورت کو دیا، محمد بن جعفر نے دعویٰ کیا کہ وہ عورت ایک  حجام تھی، اور دوسروں نے مجھ سے (ابن اسحاق) دعویٰ کیا کہ وہ سارہ ہیں، جو بنو عبدالمطلب میں سے بعض کی حلیف تھی۔ حاطب نے اسے قریش تک پہنچانے کے لیے وہ خط دیا۔ اس نے وہ خط اپنے بالوں میں ڈالا اور پھر بالوں کو ڈھانپ کر اسے چھپا لیا اور پھر وہ چلی گئی۔ حاطب نے جو کچھ کیا تھا اس کی خبر وحی کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

بخاری نے عبید اللہ بن ابی رافع سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد کو یہ کہتے ہوئے کہیں بھیجا تھا ، انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا " جاؤ یہاں تک کہ تم لوگ روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا ‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا"۔ ہم روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لیے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اور وہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتار دیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کر دیا ‘ اور ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے ‘ اس کا مضمون یہ تھا ‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف ‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(يا حاطب ما هذا؟)" اے حاطب! یہ کیا  ہے؟" انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا ‘ لیکن ان سے میرا کوئی رشتہ ناتہ  نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں  رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے ‘ اس لیے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کر دوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: (أما إنه قد صَدَقكم) " حاطب نے تم سے سچ کہا ہے"۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: د شهد بدرًا، وما يدريك لعل الله قد اطَّلَعَ اللَّهُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ" یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اورکیا معلوم، اللہ تعالیٰ نے مجاہدینِ بدر  پر نظرِ کرم کی ہو اور کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں"۔. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ممتحنہ نازل فرمائی: يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمۡ أَوۡلِيَآءَ تُلۡقُونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَقَدۡ كَفَرُواْ بِمَا جَآءَكُم مِّنَ ٱلۡحَقِّ يُخۡرِجُونَ ٱلرَّسُولَ وَإِيَّاكُمۡ أَن تُؤۡمِنُواْ بِٱللَّهِ رَبِّكُمۡ إِن كُنتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَٰدٗا فِي سَبِيلِي وَٱبۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِيۚ تُسِرُّونَ إِلَيۡهِم بِٱلۡمَوَدَّةِ وَأَنَا۠ أَعۡلَمُ بِمَآ أَخۡفَيۡتُمۡ وَمَآ أَعۡلَنتُمۡۚ وَمَن يَفۡعَلۡهُ مِنكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ "اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کہ ان کے پاس دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو سچا دین آیا ہے اس کے یہ منکر ہو چکے ہیں، رسول کو اور تمہیں ا س بات پر نکالتے ہیں کہ تم الله اپنے رب پر ایمان لائے ہو، اگر تم جہاد کے لیے میری راہ میں اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہوتو ان کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے پاس پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم مخفی اور ظاہر کرتے ہو اور جس نے تم میں سے یہ کام کیا تو وہ سیدھے راستے سے بہک گیا"  [سورۃ ممتحنہ:1].

سہُیلی نے کہا کہ حاطب کے  خط میں لکھا تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر کے ساتھ تمہاری طرف  آرہے ہیں جیسے ایک رات جو طوفان کی طرح چلتی ہے۔ اللہ کی قسم اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلےبھی  تمہاری طرف کوچ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں تم پر فتح دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہےوہ اسے پورا کرے گا۔ ابن سلام کی تفسیر میں ہے کہ حاطب نے لکھا تھا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کوچ کر لیا ہے، شاید یہ آپ کی طرف ہو یا کسی اور کی طرف بھی  ہوسکتا ہے، لہٰذا ہوشیار رہو۔

حاطب بن ابی بلتعہ، مصر کے حاکم مقوقس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ حدیبیہ کا معاہدہ کر لیا تو پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش نہیں رہے۔ اللہ عزوجل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام پہنچانے کا حکم دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بادشاہوں اور حکمرانوں کے پاس قاصد بھیجے۔ آپ نے قیصر، خسرو اور نجاشی کے پاس قاصد بھیجے... جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أيها الناس، أيُّكم ينطلق بكتابي هذا إلى صاحب مصر وأجره على الله؟  "اے لوگو! تم میں سے کون میرا خط لے کر مصر کے حاکم کے پاس جائے گا، اس کا اجر اللہ کےذمے ہے؟ "۔حاطب بن ابی بلتعہ نے اچھل کر کہا: میں ہوں یا رسول اللہ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بارك الله فيك يا حاطب "اے حاطب، اللہ تمہیں برکت دے"۔ حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر مصر کا سفر  شروع کیا۔ وہ مصر کا راستہ جانتے تھے، کیونکہ وہ پہلے بھی کئی بار تجارت کی غرض سے مصر کا سفر کر چکے تھے۔ خط جوریح بن مینا کو بھیجا گیا جو مصری تھا۔ تاہم،وہ ہرقولیس کی طرف سے مصر پر حکومت کرتا تھا۔ وہ ٹیکس وصول کر کے قسطنطنیہ بھیجتا تھا۔ اسکندریہ اس کا دارالحکومت تھا۔

حاطب بن ابی بلتعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مقوقس کو پیش کیا۔ خط میں لکھا تھا: بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد بن عبد الله إلى المقوقس عظيم القبط، سلام على من اتبع الهدى... أما بعد، فإني أدعوك بدعاية الإسلام، أسلم تسلم يؤتك الله أجرك مرتين، فإن تولَّيْتَ فإنَّما عليك إثم القبط، (قُلۡ يَٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ تَعَالَوۡاْ إِلَىٰ كَلِمَةٖ سَوَآءِۢ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَعۡبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهِۦ شَيۡ‍ٔٗا وَلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِۚ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَقُولُواْ ٱشۡهَدُواْ بِأَنَّا مُسۡلِمُون )"اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ محمدبن عبداللہ کی طرف سے، مصر کے عظیم قبطی مقوقس کو: سلام ہو اس پر جو ہدایت یافتہ راستے پر چلے! اور اس کے بعد میں تمہیں اسلام کی دعوت کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام قبول کرو اور محفوظ رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اجر کو دوگنا کر دے گا۔ لیکن اگر تم منہ موڑو گے تو مصریوں کا قصور تم پر ہو گا۔ 'کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں' [آلِ عمران 3:64]"۔

مقوقس نے حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف دیکھا اور پوچھا:" اگر وہ نبی ہے تو اسے کس چیز نے روکا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف (اللہ سے) دعا کریں جنہوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے اس كی سرزمین سے نکال دیا؟"۔ حاطب خاموش رہے اور جوریح بن مینا (مقوقس) نے سوال دہرایا، جب اس نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کی رضامندی دیکھی اور پوچھا:" اسے کس چیز نے روکا کہ اگر وہ نبی ہیں تو مخالفت کرنے والوں کے خلاف پکاریں،جنھوں نے  اسے اس کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں نکال دیا، تاکہ ان پر قابو پا سکیں؟"۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے جواب دیا:" کیا تم گواہ ہو کہ عیسیٰ بن مریمؑ اللہ کے رسول ہیں؟"۔ مقوقس نے کہا:" ہاں"۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے کہا:" تب کیا معاملہ تھا جب ان کی قوم انھیں سولی پر چڑھانا چاہتی تھی؟ انھوں نے اللہ سے ان كے خلاف دعا نہ كی یہاں تك كہ اللہ نے ان كو اٹھا لیا"۔ مقوقس نے تعریف کے ساتھ سر ہلایا اور کہا:" شاباش، آپ عقلمند ہیں۔ اوریہ  پیغام عقلمندوں کی طرف سے ہے"۔

حاطب بن ابی بلتعہ نے كہا:" تم سے پہلے ایک شخص تھا جس نے اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہا، تو اللہ نے اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب دیا۔ آپ کو اس کی مثال پر دھیان دینا چاہیے تاکہ آپ خود بھی عبرت کی کہانی نہ بن جائیں"۔ حاطب کی مراد فرعون تھا جو موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ چنانچہ کلیم اللہ (موسیٰؑ) اور بنو اسرائیل فتح یاب ہوئے اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوگئے۔ مقوقس نے حیرانی سے حاطب کی طرف دیکھا اور وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں میں سوال ابھرے: اس عربی کو اتنا علم کہاں سے ملا؟ چنانچہ حاطب نے مزید کہا: "یہ نبی لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ ان کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں وہ قریش ہیں، ان کی سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی ہیں اور جو ان کے قریب ترین ہیں وہ عیسائی ہیں یعنی وہ جو ان کی نبوت پر ایمان لانے والے ہیں۔ میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) محمدﷺ کی بشارت لے کر آئے تھے اور یہ اس سے بالكل مختلف نہیں ہے کہ موسیٰؑ نے عیسیٰؑ کی بشارت دی تھی۔ ہماری آپ کو قرآن کی دعوت ایسے ہی ہے جیسے آپ تورات والوں کو انجیل کی طرف بلا رہے ہیں"۔

مقوقس نے کہا: "میں نے اس نبی کے بارے میں سوچا ہے۔ وہ دنیا کو ایک طرف چھوڑنے کی تبلیغ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اچھی چیز سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ میں اسے گمراہ کرنے والا  کوئی جادوگر یا کوئی    جھوٹا جادوگر نہیں سمجھتا۔ میں اس میں نبوت کی نشانیاں دیکھتا ہوں جو پوشیدہ رازوں کی خبر دیتا ہے۔ لیکن مجھے غور کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا"۔ اس کے بعد، مقوقس نے ایک خط لکھا جس میں لکھا تھا: "اللہ کے نام سے، جو سب سے نہایت رحم کرنے والا ہے، قبطی حاکم مقوقس کی طرف سے عبداللہ کے بیٹے محمد کی جانب: السلام علیکم۔ اس کے بعد... میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ نے مجھے کس چیز کی دعوت دی ہے! میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک رسول آنے والا ہے۔ لیکن میں نے سوچا تھا کہ وہ شام  میں نظر آئے گا۔ میں نے آپ کے ایلچی کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے۔ اور میں آپ کے پاس دو غلام بھیج رہا ہوں جو قبطیوں کے پاس سب سے زیادہ عزت دار ہیں، اور میں آپ کو سواری کے لیے ایک خچر دے رہا ہوں۔ آپ پر سلامتی ہو"۔

حاطب کی وفات مدینہ منورہ میں 30 ہجری میں ہوئی جب ان کی عمر 65 سال تھی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ حاطب جہنم میں نہیں جائے گا۔ حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاطب کی شکایت کرنے آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہﷺ! حاطب یقیناً جہنم میں جائے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: كَذَبْتَ لاَ يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ "تم نے جھوٹ بولا۔ وہ یقیناً جہنم میں نہیں جائے گا، کیونکہ اس نے بدر اور حدیبیہ دیکھے ہیں"(مسلم)۔حاطب سے رسول اللہ ﷺ كی ایك حدیث بھی روایت ہوئی ہے۔ یہ حدیث ان کے دو بیٹوں عبدالرحمٰن بن حاطب، یحییٰ بن حاطب اور عروہ بن زبیر نے روایت کی ہے۔

Last modified onبدھ, 09 مارچ 2022 21:04

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک