الثلاثاء، 24 جمادى الأولى 1446| 2024/11/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

آئینی پیکج نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کا آئین خالص سیکولر آئین ہے

کئی مہینوں کی مشقت کے بعد پیش کیا گیا آئینی پیکج، جس پر مذہبی اور سیکولر جماعتوں نے اتفاق کیا، پاکستان میں رائج کفر کو برقرار رکھے گا۔ نہ صرف یہ کہ اس پیکج کی ایک بھی شق قرآن و سنت سے اخذ کردہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے آئین میں تمام وہ کفریہ اور غیر اسلامی شقیں برقرار رکھی گئی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ مثلاً امریکہ ہماری زمین اور فضا دہشت گردی پر مبنی جنگ کے لئے استعمال کرتا رہے گا؛ آزادیٔ رائے کے نام پر جاری فحاشی جاری رہے گی، سودی کاروبار جاری رہے گا؛ صدر سمیت دیگر حکومتی شخصیات کو جرم کرنے کا استثنائ حاصل رہے گا، اقوام متحدہ جیسے استعماری ادارے کی کفریہ قرار دادوں اور قوانین کے تحت پاکستان کی خارجہ پالیسی چلائی جاتی رہے گی؛ ملٹی نیشنل کمپنیوں کانجکاری کے نام پر عوامی اثاثہ جات پر تسلط برقرار رہے گا، جس کی بنا پر آئے دن تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ الغرض یہ اور اس جیسے سینکڑوں غیر شرعی قوانین جو آج پاکستان کے سیکولر آئین کی بدولت نافذ ہیں، پاکستان کے مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہیں گے۔ ایسے میں افسوس تو ان مذہبی جماعتوں پر ہے جنہوں نے بغیر کسی چوں و چراں کے اس سیکولر آئینی پیکج پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ انہوں نے اسلام کے عدم نفاذ اور کفر کے نفاذ کے خلاف رتی برابر بھی احتجاج نہیں کیا۔ بے شک اس سیکولر نظام کا حصہ بن کر اسلام کی خدمت تو ممکن نہیں بلکہ یہ کفریہ نظام ان مخلص افراد سے بھی کفر کے لئے حمایت حاصل کروا لیتا ہے۔ نیز اس پیکج میں دئے گئے صوبائی خودمختاری کے وسیع تر اختیارات نہ صرف اسلامی نظام حکومت سے متصادم ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر استعمار انہیں مستقبل میں ملک توڑنے کے لئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ہم عوام کو متنبہ کرتے ہیںکہ یہ پیکج استعماری اور چند سیاستدانوں کے مفادات کے سوا کسی ملکی یا عوامی مفاد کا تحفظ نہیں کریگا۔ ایک اسلامی آئین مکمل طور پر قرآن، سنت، اجماع الصحابہ(رض) اور قیاس سے اخذ کیا جاتا ہے اور یہ آئین کسی بھی قانون کو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مآخذ سے اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ حزب التحریر نے نہ صرف امت کے سامنے اسلامی ریاست﴿خلافت﴾ کا مکمل آئین پیش کیا ہے بلکہ اسلامی نظام حکومت پر نہایت مفصل اوضخیم کتب بھی تحریر کی ہیں جو انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ ہم عوام اور اہل علم کو دعوت دیتے ہیںکہ وہ اسلامی نظام حکومت کے تفصیلی جائزے کے لئے ان کا مطالعہ کریں۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ آئینی قلابازیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ صرف خلافت کے ذریعے ہی اسلام کا نافذ ممکن ہے۔

 

Read more...

لندن کانفرنس - امریکہ اور برطانیہ سرزمینِ یمن پر اپنا اثرورسوخ مضبوط کرنے کیلئے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں

 

برطانوی وزیر اعظم نے یکم جنوری 2010کو یمن کی صورتحال پر غور کرنے اور جنم لینے والے بحران سے نکلنے میں یمن کی مدد کے نام پر لندن میں کانفرنس طلب کی۔ جو آج یعنی 27جنوری 2010ئ کو منعقد ہوئی ،جس میں 21ممالک نے شرکت کی اور یہ کانفرنس دو گھنٹے جاری رہی۔ اس کانفرنس میں القائدہ کے خلاف جنگ میں یمن کی مدد اور اسکے ساتھ ساتھ ترقیاتی معاونت، اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں مدد اور IMFکیساتھ مذاکرات اورجامع مفاد کے حصول میں مدد کے متعلق قرارداد یں اور میڈیا بیانات جاری کیے گئے۔

 

یمن میں حالیہ واقعات اور موجودہ حالات پر نظر رکھنے والا شخص اس بات کو محسوس کرسکتاہے کہ ان قراردادوں کی ظاہری مک دمک نے درپردہ طے پانے والی حقیقی اور موثر قراردادوں کو چھپا دیا ہے۔ اور وہ یہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ و برطانیہ کویمن پر وسیع اختیار حاصل ہیں اور اس کانفرنس کے انعقاد کے پسِ پردہ ان کے اپنے مفادات اور ایجنڈا ہے اور وہ اس کانفرنس سے مخصوص نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

یمن میں برطانوی اثررسوخ کے قیام سے لے کر آج تک ، خصوصاً موجودہ حکومت کے دور میں ، امریکہ یمن میں حالات کو غیر مستحکم کرنے اور اپنے دیرینہ نقطہ نظر کو نئی شکل میں مسلط کرنے کیلئے کئی کوششیں کر چکا ہے ۔ امریکہ اپنے آپ کو دم توڑتی برطانوی سلطنت کا فطری جانشین سمجھتا ہے اور اس بات کو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ پرانی اور کمزور برطانوی سلطنت کی سابقہ کالونیوں پر اپنی مرضی چلائے۔ پس وہ برطانیہ کے بجائے اپنے آپ کو یمن کا حقیقی مالک سمجھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے باوجودیمن کی موجودہ حکومت بڑی حد تک یا مکمل طور پرامریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور امریکہ کی وفادار ہے، پس امریکہ جسے قتل کرانا چاہتا ہے یہ حکومت اسے قتل کرتی ہے ،اور امریکہ جسے گرفتار کرانا چاہتا ہے یہ اسے ہتھکڑیاں لگا دیتی ہے،امریکہ جسے ملک بدر کرنا چاہے یہ اسے ملک بدر کردیتی ہے اور امریکہ جسے غائب کرانے کی خواہش ظاہر کرے ،یہ اسے غائب کردیتی ہے...تاہم یمن میں امریکہ کے پاس کوئی ایسا قدآور سیاست دان نہیں ہے جسے امریکہ کندھا دے کر مسندِاقتدارتک پہنچا سکے اوربرطانوی اثر رسوخ کو لگام دے کر یمن میں اپنے اثرورسوخ کو مضبوط بنیادیں فراہم کر سکے ۔ چنانچہ امریکہ نے دو کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:

 

یمن کی حکومت کو دھمکانے کے لیے تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) اور امریکہ نواز درمیانے درجے کی سیاسی قیادت کی تربیت(Training Battalions)۔

 

جہاں تک تھریٹ بٹالین(Threat Battalions) کا تعلق ہے توایران کویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ حوثیوں (Houthis)کو مدد فراہم کرے۔ پس یہ صورتِ حال ایک ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بم کی شکل اختیار کر چکی ہے جو کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے قریب شمالی یمن میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے...ہم نے حوثیوں(Houthis) کو'تھریٹ بٹالین‘ قرار دیاہے کیونکہ یہ یمن کے اقتدار پر قابض ہونے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ یہ علاقے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کے لیے کا م کر رہے ہیں۔

 

جہاں تک ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) یا امریکہ نوازمِڈ لیول سیاستدانوں کا تعلق ہے تو یہ جنوبی یمن میں ایک مسلسل تحریک ہے ،تاکہ امریکی ایجنڈے کے پہلے قدم کے طور پر جنوبی یمن کو شمالی یمن سے علیحدہ کیا جائے، اور پھر پورے یمن پر امریکی اثررسوخ کو مستحکم کیا جائے۔ ہم نے انہیں ٹر یننگ بٹالین(Training Battalions) کا نام اس لئے دیا ہے کہ ان درمیانے درجے کے سیاست دانوںکو ان کی ٹاپ لیڈرشپ کے خاتمے کے بعد پروان چڑھایا جا رہا ہے اور انہیںاشتعال و عدم استحکام پیدا کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔

 

امریکہ ان دونوں کاموں میں کامیاب رہا ہے کیونکہ اس نے جنو ب میں حکومت کے ظلم سے فائدہ اٹھایا اور سیاسی لحاظ سے حکومت کو کارنر کیا۔ اور پھر حوثیوں کو انکی تشریح اور اسلامی افکار کی تبنی کے مطابق احکامِ شریعہ پر عمل کرنے سے روکا گیا۔ اسی مقصد کے تحت حکمرانوں نے یمن میں احسن طریقے سے شرعی احکامات کو نافذ نہ کرنے میں رضامندی اور تعاون کا رستہ اپنایا۔ یمنی حکومت نے نرم اور قابل قبول فضا بنانے میں امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں امریکہ شمال میں تھریٹ بٹالین اور جنوب میں ٹر یننگ بٹالین کو پھیلانے کے قابل ہوا۔ تاہم یہ صورتِحال حکومت کی گردن پر اس حد تک سوار ہو گئی کہ برطانیہ اس امر پر مجبور ہو گیا کہ وہ دو محاذوں پر 'ہنگامی‘ اقدامات کرے۔

 

اول : ایک امن معاہدہ کے ذریعہ امریکہ کو خوش کرنا اور حکومت کیلئے اسکی خاموش حمایت حاصل کرنا۔ 10اور 11نومبر 2009 کو صنعائ میں عسکری اور دفاعی قیادت کے مذاکرات کے بعد یمن اور امریکہ ایک امن اور دفاعی ﴿عسکری﴾ معاہدے پر پہنچ گئے۔ یہ معاہدہ عسکری اور دفاعی معاملات میں تعاون اور دونوں میدانوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔ اس معاہدہ کا اعلان یمن کی افواج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل احمد علی اوریوایس جوائنٹ کمانڈکے پلاننگ کے ڈائریکٹر جیفری سمتھ کے درمیان گفت وشنیدکے بعد کیا گیا۔

 

دوم: القائدہ کی روک تھام کرنا اور اس سے لڑنا! حکومت کافی عرصہ سے القائدہ کے لوگوں کو جانتی تھی لیکن وہ انکی موجودگی کے متعلق خاموش رہی، کیونکہ حکومت حوثیوں اور جنوبیوں کے ساتھ لڑائی ک ساتھ ساتھ ایک تیسرا محاذ کھول کر اپنی مشکلات بڑھانا نہیں چاہتی تھی ۔ حکومت القائدہ کے بارے میں اس وقت تک خاموش رہی جب تک برطانیہ نے اسکے دوسرے پہلو پر نہیں سوچا ۔ برطانیہ جانتا ہے کہ امریکہ القائدہ کے بارے میں حساس ہے اور اگر یمن کی حکومت القائدہ سے لڑے گی تو امریکہ یمن کی مدد کرنے پر مجبور ہوجائیگا اور شمال اور جنوب سے پڑنے والا دبائو کم ہوجائے گا۔ پس حکومت نے القا ئدہ کے ٹھکانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ،جنہیں وہ پہلے سے جانتی تھی۔ القائدہ پر یہ حملہ اتفاقی نہیں تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حملہ تھا۔ یمن کی حکومت شمال ﴿حوثیوں﴾اور جنوب میں دو محاذوں پر لڑرہی تھی، ایک تیسرا محاذ کھولنا غیر معمولی امر تھا جو کہ ایک سیاسی اقدام تھا ، جبکہ اس کا اظہار عسکری تھا۔ یہ قدم خالصتاً برطانوی ایما ئ اور ایجنڈے کے مطابق تھا۔

 

اس نازک موڑ پر برطانوی وزیراعظم نے لندن کانفرنس بلائی تاکہ القا ئدہ پر حملہ کرنے اور اس سے لڑنے کیلئے یمن کے حق میں بین الاقوامی حمایت اور مدد حاصل کی جائے۔ اور اس طرح امریکہ کو یمن کی حکومت کی مدد کرنے اور شمال اور جنوب سے دبائو کم کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ امریکہ کے پاس کانفرنس کی حمایت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ساتھ ہی امریکہ اپنے اثرورسوخ کو قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے سیاسی اتحادیوں کو خصوصاً جنوب میں مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اور حوثیوں کیلئے ایک ایسے حل کا متمنی ہے کہ امریکہ ان سے دور بھی ہوجائے اور ان سے قطع تعلق بھی نہ ہو ،تاکہ یہ تحریک چلتی رہے اور ضرورت پڑنے پر اسکو بڑھاکر ﴿ہوا دیکر﴾ اسکا فائدہ بھی اٹھایا جاسکے۔

 

کانفرنس کے دوران کیا ہوا: امریکہ اس بات پر زور دیتا رہا کہ القائدہ کے خلاف لڑنے میں یمن کی عسکری مدد کی جائے اور اسے لاجسٹک امداد دی جائے اور جنوبی اور شمالی علاقوں میں تحریکوں کیساتھ مذاکرات کرنے کیلئے یمن کے اوپر دبائو ڈالا جائے، جبکہ برطانیہ اس بات پر زور دے رہا تھا کہ شمالی اور جنوبی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یمن کی اقتصادی معاونت کی جائے اور اس کیلئے عالمی حمایت حاصل کی جائے۔ اور حوثیوں اور جنوبیوں کے خلاف مدد کے طور پر القائدہ کی نگرانی کی جائے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مختلف ممالک کے نمائندوں کا دو گھنٹوں کیلئے کیمروں کے سامنے کھل کر مسکرانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔ اور پھر برطانیہ اور امریکہ نے شرکائ میں سے اپنے اپنے حواری ممالک کو اپنے گرد اکٹھا کیا تاکہ یمن کے لوگوں کے خون کے بدلے اپنے اپنے ایجنڈے کو پورا کرسکیں!۔

 

اے مسلمانو!

 

آخر کب تک مسلمانوں کے علاقے بڑی متحارب اقوام کی آپس کی لڑائی کا میدانِ جنگ بنے رہیں گے اور یہاں کے بیٹوں کو اپنی جنگوں کیلئے ایندھن کے طور پراستعمال کرتے رہیں گے اور اپنے مفاد کی جنگوںکا لقمہ بناتے رہیں گے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینیں مغرب کیلئے کھیل کا میدان بنی رہیں گی ،کہ وہ انکی دولت لُوٹے اور مسلمانوں کا خون بہائے؟ آخر کب تک مسلمانوں کی زمینوں پر مغرب کی آگ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق بھڑکائی جاتی رہے گی؟ آخر کب تک یمن اور دیگر مسلمان ممالک کے حکمران بغیر کسی شرمندگی ،رکاوٹ اور مزاحمت کے ،شطرنج کے مہروں اور کٹھ پتلیوں کی طرح استعماری مغرب کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے۔ کیا یمن کے عوام پر اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ یہ یمن کی حکومت اور اسکا ظلم ہی ہے جس نے مغرب کو یمن میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے ،یہاں کے لوگوں کو قتل کرنے اور ان کے اموال کو تباہ و بربادکرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس کے باوجود حکمرانوں کو اپنی حکومت اور اپنا عہدہ بچانے کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ،خواہ یہ طاقت اور اقتدار کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، اس حد تک کہ ان کی حکومت مفلوج ہوکر کسی بھی وقت گر سکتی ہے ۔

 

پچھلے دس سالوں میں اس جنگ کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ یا تو قتل کردیے گئے یا معذور ہوچکے ہیںاور دونوں اطراف اس تباہی کا نشانہ مسلمان ہی ہیں،دونوں طرف کے لوگ اللہ کی معبودیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ۔ کیا آپ اس بات کا ادراک نہیں کرتے کہ کسی مسلمان سے لڑنا انتہائی سنگین اور عظیم گناہ ہے اور ایک مسلمان کا ناجائز قتل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک بہت شدید امر ہے ،یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے گرانے سے بھی زیادہ شدید۔ ابن ماجہ نے عبیداللہ بن عمرو سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا»
''کتنا طیب ہے تو اور کتنی طیب تیری ہواہے ، کتنا عظیم ہے تو اور کتنی عظیم تیری حرمت ہے۔ لیکن اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اللہ کی نظر میں ایک مومن ، اس کے خون اور اس کے مال کی حرمت تجھ سے بڑھ کر ہے ۔ اورہم اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ گمان نہیں کرتے‘‘

 

ا بے شک برطانیہ اور امریکہ آپس کی جنگ لڑرہے ہیں اور یمنی حکومت کے تعاون اورلاجسٹک سپورٹ سے یہاں کے مقامی عناصر کو استعمال کررہے ہیں جبکہ جنوب میں علیحدگی پسند اور شمال میں حوثی نادانی میں دشمنوں کے ایجنڈے کو ہی مضبوط کر رہے ہیں،جبکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بھلائی کاکام کررہے ہیں۔

 

اے مسلمانو! ہمارامسئلہ دو ہراہے:

 

اول: مسلم ممالک کے حکمران نہ اپنے عوام کے امور کی دیکھ بھال کرتے نہ ہی وہ اپنے لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں ۔ وہ نہ تواپنے لوگوں اور نہ ہی اپنے علاقوں پر ظلم ڈھانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ اگر وہ سوچتے تو جان لیتے کہ اپنے لوگوں سے غداری کرنے والا اور انکے امور کی دیکھ بھال نہ کرنے والا حکمران جنت میں داخل نہیں ہوگا ، حتیٰ کہ وہ اسکی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ بخاری نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»
''کوئی بھی والی اس حال میں مرے کہ اس نے اپنے لوگوں سے غداری کی ہو، تواللہ اس پر جنت کو حرام کر یتا ہے‘‘۔ ﴿بخاری﴾

 

اور ایسا کوئی حکمران جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دے اور ان سے غداری کرے ، اوران کے سامنے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر دکھائے ،وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنے ہی ریوڑ کو موت اور تباہی کے دہانے پر پہنچا دے۔ امام احمد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نقل کی ہے:

 

«إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ»
''لوگوں پر دھوکہ دہی کا ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ سچے کو جھٹلائیں گے اورجھوٹے کا یقین کریں گے ، امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا،اور اس وقت رویبضۃ کا بول بلا ہو گا۔ پوچھا گیا کہ رویبضۃ کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا اور قابلِ نفرت شخص جو لوگوں کے امور میں کلام کرے گا‘‘۔

 

ہمارا دوسرا مسئلہ جابر حکمرانوں کے سامنے امت کی خاموشی اور انکے خلاف آواز نہ اٹھانا اور انہیں نہ روکنا ہے۔ ایسا اس امر کے باوجود ہے کہ ان حکمرانوں نے امت پر ذلت مسلط کررکھی ہے ۔ ہم فلسطین ،کشمیر ،قبرص اور مشرقی تیمور کھو چکے ہیں،سوڈان علیحدگی کے دہانے پر ہے، عراق،افغانستان،پاکستان اور اب یمن مغرب کی آپس کی لڑائی کیلئے میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے حکمران انکے آلہ کار ہیں ،اورمتحارب مغرب کے اتحادی ہیں۔ پس اس میں کوئی تعجب نہیں کہ عذاب نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام پربھی مسلط ہو، جنہوں نے خاموش رہ کر ظلم کو قبول کر لیاہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب﴾
''اور اُس فتنہ سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘﴿الأنفال:25﴾
احمد اور ابو داؤد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے:

 

«إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُنْكِرُوهُ يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابِهِ»
'' جب لوگ اپنے درمیان برائی ہوتادیکھیں اور اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ اُن سب پر اپنا عذاب نازل کر دے‘‘

 

اے مسلمانو!

 

تاہم صبح اب قریب ہے اور نظر رکھنے والے اسکی روشنی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف اسی طرح ٹھیک ہوگا جیسے اسلام کے پہلے دور میں ہواتھا، یعنی نبوت کے قدموں پر چلتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے قیام کے ذریعے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق حکومت کرے گی ا ور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی۔ جس میں مسلمانوں کاحکمران خلیفۂ راشد ہوگا جو کہ ایک ڈھال کی مانند مسلمانوں کی حفاظت کرے گا اور مسلمان اس کی قیادت میں لڑیں گے۔ یہی ہے وہ ڈھال جو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں عمدہ نصیحت کرتی ہے۔ پھر امریکہ ، برطانیہ اور انکی طرح کے دیگراستعماری کفارکوہم پر اور ہماری زمینوں پر حملہ آور ہونے اوراثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے نہ تو وقت ہوگا اور نہ ہی موقع ، کیونکہ وہ اپنے علاقوں اور ممالک کو بچانے کے لیے واپس بھاگیں گے۔ لیکن وہ اسلام کے نور سے ''بھاگ‘‘ نہیں سکیں گے، کیونکہ اسلام کی روشنی پھیل کر انکے گھروں کی دہلیز پرپہنچ جائے گی۔

 

﴿وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی أَمْرِہٰ وَلَ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾

''اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘﴿یوسف: 21﴾

Read more...

پاکستان کے ظالم حکمرانوں کے نام حزب التحریر ولایہ پاکستان کاکھلا خط

 

اس شخص پر اللہ کی رحمت ہو جس نے راہِ ہدایت کی پیروی کی۔

 

اے پاکستان کے ظالم حکمرانو!

 

ہم یہ نصیحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی میں آپ لوگوں کوارسال کر رہے ہیں، جنہوں نے قریش کے کئی سرداروں کو نصیحت کی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ سردارانِ قریش نہ تو ہدایتِ الٰہی کو سنجیدگی سے لیں گے اور نہ ہی سچے دین کی اتباع کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اللہ کے حکم کے مطابق تھا، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

 

﴿لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾

''تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے ، تو انہوں نے کہا: تاکہ تمہارے پروردگار کے سامنے اپنے لیے عذر پیش کر سکیں اور شاید وہ تقویٰ اختیار کریں‘‘ ﴿الاعراف: 164﴾

 

چنانچہ ہم آپ کو نصیحت کر رہے ہیں تاکہ اُس دن اللہ کے سامنے معذرت کر سکیں جب تمام بنی نوعِ انسان کو اللہ کے سامنے حاضر کیا جائے گا۔ اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ آپ ہدایت کے طلب گاربن جائیں اوران لوگوں میں سے ہو جائیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔

 

اے پاکستان کے ظالم حکمرانو!

 

اس امر کو دوسال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے کہ 2008کے جمہوری انتخابات کے ذریعے امریکی ایجنٹ جنرل مشرف کی جگہ نئے چہرے لائے گئے ۔ اور اس وقت سے اب تک آپ کی پالیسیاں لوگوں سے مسلسل خیانت اور دھوکہ دہی پر مبنی ہیں ، آپ نے پاکستان کے لوگوں کو اُن کے حق سے محروم کر رکھا ہے اور اُن نعمتوں کو لوگوں سے روک رکھا ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہیں۔

 

اگرچہ پاکستان کے پاس سونا، کوئلہ ، گوشت اور گندم سمیت بے شمار وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں ، لیکن آپ سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کے ذریعے لوگوں سے خیانت کر رہے ہیں اور انہیں دھوکہ دے رہے ہیں، جو وسائل کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر دیتا ہے اور عوام کی اکثریت کو ان سے محروم کر دیتا ہے۔ لوگ سخت معاشی مشکلات سے دوچار ہیں، بنیادی ضروریات کی اشیائ اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ بجلی کی قلت کی وجہ سے صنعتیںتباہ ہو رہی ہیں، اگرچہ اسلام نے بیان کیا ہے کہ توانائی عوامی ملکیت ہے جسے تمام عوام کو ٹیکسوں کے بغیرسستے داموں اور بلا تعطل فراہم کرنا لازم ہے۔ روپے کی قدر دن بدن کم ہو رہی ہے،جس کی وجہ سے قیمتوں میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی؛ یہ اس وجہ سے ہے کہ کرنسی مسلمانوں کی حقیقی دولت سے منسلک ہونے کی بجائے امریکی ڈالر سے منسلک ہے، وہ امریکہ کہ جس کی اپنی معیشت ڈانواں ڈول ہو چکی ہے۔ آپ لوگوں سے خیانت کے مرتکب ہیں اور انہیں دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ آپ اسلام کے معاشی قوانین کے نفاذ سے انکاری ہیں ،وہ قوانین جو دولت کی گردش اور تقسیم کو یقینی بناتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالی نے دولت کے ارتکاز سے خبردار کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:

 

﴿كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ﴾

' 'تاکہ وہ مال تمہارے دولتمندوں کے ہاتھ میں ہی گردش کرتا نہ رہ جائے‘‘﴿الحشر:7﴾۔

 

اور اگرچہ اس خطے کے لوگ اسلام سے محبت کرتے ہیں اورانہوں نے ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے اسلام کو تھام رکھا ہے، لیکن آپ لوگوں کی اِس بنیادی پہچان اور اسلامی اقدار کے بارے میں لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ آپ نے کرپٹ مغربی آزادیوں اور قوانین کو گلے لگا رکھا ہے۔ آپ نے اس بات کی اجازت دے رکھی ہے کہ مغربی سفارت خانے پاکستان کی چند کرپٹ میڈیا شخصیات ، مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ثقافتی تنظیموں کو مالی مدد فراہم کر یں اور ان کے ذریعے اسلام کے تصورات اور اسلامی جذبات کو نشانہ بنائیں۔ اور جب پاکستان کے مسلمانوں نے اس فکری کرپشن کے خلاف مزاحمت کی تو آپ کی خیانت اس انتہائ کو پہنچ گئی کہ آ پ نے مغرب کے غلیظ سیاسی تصورات کو اسلام کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی اور یہ دعویٰ کیا کہ موجودہ جمہوری تماشا اور گھٹیاسودے بازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طے کردہ میثاقِ مدینہ کے عین مطابق ہے یا خلافتِ راشدہ کی ہی مثل ہے! آپ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ آپ نے اسلام کی تعلیمی اور میڈیا پالیسی کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے ، جو جامع انداز میں اسلامی جذبات و تصورات کی حفاظت کرتی ہے اور انہیں پروان چڑھاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾

''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘﴿التحریم:6﴾

 

اوراگرچہ پاکستان ایک مضبوط مسلمان ملک ہے ، جس کی زمینی فوج امریکہ کی زمینی فوج سے بڑی ہے اور اپنے جذبہ شہادت کی بنا پر بہادری کے وصف سے آراستہ ہے، لیکن آپ نے پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمن کاساتھ دے کر لوگوں کے امن وتحفظ کے حق میں خیانت کی ہے۔ چنانچہ خطے میں امریکہ کی موجودگی کے نتیجے میں پاکستان کے لوگوں کی زندگیوں کی سلامتی اور تحفظ کو شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ امریکہ کی پرائیویٹ فوجی تنظیمیں اور انٹیلی جنس ایجنسیاں عراق کے بعد اب پاکستان میں دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی قبیح مہم چلا رہی ہیں۔ مشرف کی مانندآپ نے بھی امریکی جنگ کو لڑنے کے لیے پاکستانی فوج کے مسلمان سپاہیوں کو قبائلی علاقوں میں بھیج کر مسلمانوں کو پہنچنے والے ضرر میں اضافہ کیا ۔ 11ستمبر کے واقعے کے بعد سے اب تک امریکہ کی بھڑکائی ہوئی فتنے کی اس جنگ میں اب تک 30,452لوگ مارے جا چکے ہیں یا زخمی ہو چکے ہیں،تقریباً 2273پاکستانی فوجی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، جن میں دو میجر جنرل، پانچ بریگیڈئیر سمیت 78آفیسر بھی شامل ہیں، جب کہ زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد6512سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ دوسری طرف امریکہ اور نیٹو ممالک کی تمام ترافواج نے اس صلیبی جنگ میںمجموعی طور پرصرف 1582فوجیوں کی قربانی دی ہے! پس آپ مسلمانوں کی طاقت کے متعلق لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں،اور ایسے وقت پر مسلمانوں کے خون کے ذریعے امریکہ کی اس صلیبی جنگ کو سہارا دے رہے ہیں، جب امریکہ اپنی کمزور ترین پوزیشن پر ہے ،اس کے اتحاد ی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں ،اس کی معیشت کھوکھلی ہو کر منہدم ہورہی ہے ، اور اس بات کے وسیع مواقع موجود ہیں کہ امریکہ کی اس صلیبی مہم کو ہی زمیں بوس کر دیا جائے۔ آپ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور انہیں دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ آپ نے اسلام کی خارجہ پالیسی کو نافذ کرنے سے انکار کر رکھا ہے،جو مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بنانے سے قطعی طور پر منع کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ﴾

''اے ایمان والو!میرے اور خود اپنے دشمنوں کواپنا دوست نہ بنائو، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آ چکا ہے کفر کرتے ہیں ‘‘﴿الممتحنۃ:1﴾

 

اور اگرچہ کشمیر کے مسلمانوں نے پچھلی چھ دہائیوں سے بھارت کو اس بات سے روک رکھا ہے کہ وہ کشمیر کو تر نوالا بنا لے، لیکن آپ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر پر ایسا حق مہیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بھارت اپنی تمام تر طاقت کے ذریعے بھی حاصل نہیںکر سکتا تھا اور نہ ہی وہ اس حق کا مستحق ہے۔ آپ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اوراس فتنے کی امریکی جنگ کو لڑنے کے لیے بھارت اور کشمیر کو نظر انداز کر تے ہوئے قبائلی علاقوں میںمزید افواج کو تعینات کر رہے ہیں۔ اور آپ ایسا کر رہے ہیں اگرچہ یہ امریکہ ہی ہے جو کہ افغانستان میں بھارت کے اس نئے اثرو رسوخ کا ضامن ہے، کہ جس کی وجہ سے پہلے ہی مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ آپ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور انہیں دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ آپ نے اسلام کی داخلہ پالیسی کو نافذ کرنے سے منہ موڑ رکھا ہے ، جو اس بات سے منع کرتی ہے کہ مسلمانوں کی بالشت برابر زمین کو بھی کفار کے قبضے میں دیا جائے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ ْ ﴾

''جن لوگوں نے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی ا للہ تعالیٰ ان لوگوں سے دوستی کرنے سے تمہیں منع کرتاہے جو لوگ ان سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں۔‘‘﴿الممتحنۃ:9﴾

 

اے پاکستان کے ظالم حکمرانو!

 

آپ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور ان سے غداری کر رہے ہیں کیونکہ آپ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کے علاوہ دیگر تصورات اورنظریات کے ذریعے حکمرانی کر رہے ہیں۔ آپ حق کو باطل اور باطل کو حق بنا کر پیش کر رہے ہیں اور لوگوں کی امانتوں میں خیانت کر رہے ہیں۔ آپ کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنے ہی ریوڑ کو تباہی اور ہلاکت کے دہانے کی طرف لے جائے۔ امام احمد نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

﴿﴿إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ﴾﴾

''لوگوں پر دھوکہ دہی کا ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ سچے کو جھٹلائیں گے اورجھوٹے کا یقین کریں گے ، امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا،اور اس وقت رویبضۃ کا بول بالا ہو گا۔ پوچھا گیا کہ رویبضۃ کون ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھٹیا شخص جو لوگوں کے امور میں کلام کرے گا‘‘۔

 

اگر آپ اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو ٹٹولیں اور اسلام کے احکامات پر تھوڑا سا غور کریںتو آپ یہ جان لیں گے کہ وہ حکمران جو اپنے لوگوں کو دھوکہ دے اور ان کی دیکھ بھال نہ کرے وہ جنت میں داخل نہ ہو گا حتیٰ کہ وہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ بخاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کی ہے:

 

﴿﴿ما من وال یلی رعیۃ من المسلمین فیموت و ھو غاش فھم الا حرم اللّٰہ علیہ الجنۃ﴾﴾

''اگر کوئی والی جو مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال پر مامور ہو اس حال میں مرے کہ وہ انہیں دھوکہ دے رہا ہو ،تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے‘‘

 

پس ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ آپ کفر کے نفاذ پر اور اس تمام ضرر پر جو آپ نے لوگوں کو پہنچایا ہے، توبہ کریں۔ اپنے سنگین گناہوں کے کفارے کی امید میں کم سے کم جو آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ ایک مخلص اور قابل قیادت کو جگہ دیں جو آپ کی بجائے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کو سنبھالے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے توآپ کا انجام یہ ہے کہ آپ خلافتِ راشدہ کے قیام پرامت کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوں گے، جس کا واپس لوٹنا اللہ کے اذن سے اب بہت نزدیک ہے، اورآپ اس بات سے کئی لوگوں سے زیادہ آگاہ ہیں۔ اور جو چیز سب سے شدید ہے وہ آخرت کا دردناک عذاب ہے ، کہ جس دن آپ کی دولت، عہدہ ، پروٹوکول اور باڈی گارڈز آپ کو نہیں بچا سکیں گے ۔ اور آپ یہ بات جتناجلد جان لیں ، اتنا ہی آپ کے حق میں بہتر ہے۔

 

﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الأَبْصَارُ + مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لاَ يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ﴾
''اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے ۔ وہ ان کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ﴿اور لوگ﴾ سر اوپراٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل ﴿خوف کے مارے﴾ ہوا ہو رہے ہوں گے‘‘﴿ابراہیم: 42-43﴾

Read more...

زرداری کی کشمیر سے غداری کو روکو اور خلافت کو قائم کرو جو برصغیر میں امن کے قیام کی واحد ضمانت ہے

 

5 فروری کا دن کشمیر کے مسلمانوں کی بھارت کے ظلم و جبر سے نجات اور اسلامی دنیا کے ساتھ مسلمانانِ کشمیر کے الحاق کے عزم کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ لیکن آج 5فروری کے موقع پر اس خطے کے مسلمان یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا حکمران زرداری کشمیر کے متعلق امریکی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ بھارت کے ظلم و ستم سے نجات کے کسی بھی امکان کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔ امریکی ایجنٹ مشرف نے کشمیر کے متعلق جس روڈ میپ پر بھارت کے ساتھ اتفاق کیا تھا اور اوباما حکومت نے 2009کے پالیسی ریویو میں جس کی توثیق کی ہے، یہ روڈ میپ مسلمانوں کے لیے نئے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے، کیونکہ اس میں چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کی بات کی گئی ہے ، جو معمولی وسائل وذرائع کی حامل ہوں گی اور بھارتی اثر و رسوخ اور شر کی خلاف ان کی کوئی حفاظت نہ ہو گی۔

 

زرداری اِسی امریکی منصوبے کے مطابق مسلسل قدم اٹھا رہا ہے، اور اُسے اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کہ یہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے کس قدر ضرر کا باعث ہے۔ پس مارچ2008میں زرداری نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کی جدوجہدٔ آزادی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ، اگرچہ اس جائز جدوجہد کے دوران 90ہزار سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ زرداری کی اس غداری پر غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمران کا پتلا نذرِ آتش کیا۔ پھر زرداری نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور امریکہ کی خدمت گزاری کے طور پر جنوری2010ئ میں زرداری کے وزیر اعظم گیلانی نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ امریکہ کو کشمیر پر ثالثی میں بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔ تاکہ امریکہ کشمیر کے متعلق اپنے روڈ میپ کے لیے راہ ہموار کر سکے ! حتی کہ انڈین پریمئیر لیگ کے فیصلے پر زرداری حکومت کا حالیہ غم و غصہ بھی امریکی ثالثی کے لیے جواز گھڑنے کے لیے ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی کشمیری ریاستوں کے قیام کے امریکہ منصوبے کی طرف پہلی ٹھوس پیش رفت کے طور پر زرداری حکومت نے گلگت - بلتستان کے علاقے کو پہلے ہی کسی حد تک خود مختاری دے دی ہے۔ اور مشرف کی مانند زرداری نے امریکہ کے حکم پر مزید پاکستانی فوج پاکستان کی مشرقی سرحد سے قبائلی علاقوں کی طرف منتقل کر دی ہے تاکہ افواجِ پاکستان قبائلی علاقوں میں جاری امریکی جنگ میں مصروف رہیںاور یوں مقبوضہ کشمیر بلکہ ملکِ پاکستان پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے۔ فی الحقیقت یہ اقدامات نواز شریف کی غداری سے کسی طور کم نہیں ،جب اس نے امریکی حکم پر کارگل سے پاکستان کی افواج کو عین اُس وقت واپس بلا لیا تھا،جب وہ بھارتی افواج پر حاوی ہو چکی تھی اور کارگل پر قبضے کے ذریعے بھارت پر سٹریٹیجک برتری حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

اگر زرداری امریکی منصوبے کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو گیا ، تو کشمیرکے مسلمانوں پر بھارتی ظلم و ستم کا شکنجہ مزید سخت ہوجائے گا۔ امریکہ مسلمانوں کی وحدت اور اسلامی علاقوں کے ایک دوسرے سے ضم ہونے کو روکنا چاہتا ہے ، کیونکہ یہ وحدت مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف قوت بخشے گی۔ بے شک ان چھوٹی منقسم کشمیری ریاستوں کے مسلمان کس طرح امن و تحفظ کی زندگی بسر کر پائیں گے ،جب افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسی نسبتاً بڑی ریاستوں کے مسلمان بھی ہندو ریاست کے شر ، انتشار اور خونریزی کا مسلسل سامنا کر رہے ہیں؟

 

علاوہ ازیں کشمیر سمیت برصغیر میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا،جب تک ہندوئوں کو اس خطے میں کسی بھی درجے کی اتھارٹی حاصل ہے۔ ہندو واضح طور پر اُس علاقے کے حق دار نہیں ہیں جو برطانیہ نے تقسیمِ ہند کے وقت ان کی جھولی میں ڈال دیا تھااور نہ ہی اس علاقے کے حق دار ہیں جو برطانیہ کے بعد اب امریکہ انہیںعطا کرنا چاہتا ہے۔ ہندوئوں کی حقیقت یہ ہے کہ اگر انہیں دیگر اقوام پر کسی بھی قسم کی بالادستی حاصل ہو جائے تو وہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے، خواہ یہ مسلمان ہوں یا بھارت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ظلم کا شکار اقلیتیں ہوں، جیسا کہ تامل ، سکھ وغیرہ۔ ہندومذہب، مذہبی اشرافیہ اور اچھوتوں ، ہندوئوں اور غیر ہندوئوںکے درمیان زندگی کے معاملات میں فرق کرتا ہے اور امتیازی سلوک برتتا ہے ۔ اورجمہوریت کی فطری خامیوں نے اس صورتِ حال کو مزید سنگین کر دیا ہے کیونکہ جمہوریت ہر معاملے میںاکثریت کو اقلیت پر ترجیح دیتی ہے اور اقلیت کے حقوق کو اکثریت کی خاطر قربان کردیتی ہے۔ پس دنیا کی'' سب سے بڑی جمہوریت -بھارت‘‘میں بسنے والے مسلمان تمام اقلیتوں سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہیں، خواہ یہ ریاستِ گجرات کے مسلمان ہوں یا آسام کے۔ اور جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے ،تو اب تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے یا کسی مقدمہ کے بغیر قید کیا جا چکا ہے ، ہزاروں مسلمان عورتوں کی آبروریزی کی جا چکی ہے،سینکڑوںمسلمانوں کو زندہ جلایا گیاہے یا اپاہج کیا جا چکا ہے ، سینکڑوں مساجد اور ہسپتالوں کو ملیا میٹ کیا جا چکا ہے۔ جمہوریت، آمریت، سرمایہ داریت ، کیمونزم غرض یہ کہ کفر خواہ کسی بھی قسم کا ہو ،اس کی حکمرانی کبھی بھی ظلم کا خاتمہ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی بھی قانون کے ذریعے حکمرانی ظلم کا باعث بنتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾

'' اورجو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘﴿المائدہ: 45﴾

 

اور جب تک ہندو ریاست موجود ہے اور ہندوئوں کو اتھارٹی حاصل ہے کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں ،امن وخوشحالی محض ایک خواب رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

 

﴿مَّا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٰ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾'

'کافر خواہ اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، نہیں چاہتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو، جبکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا، اور اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے‘‘﴿البقرۃ:105﴾

 

اے مسلمانانِ پاکستان!

 

صرف اور صرف یہ آپ کا دینِ اسلام ہی ہے کہ جس کے ذریعے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے برصغیر میں امن و تحفظ قائم ہو گا۔ محمد بن قاسم(رح) کے وقت سے ایک ہزار سال بعدتک اسلام کی حکمرانی برصغیر میں امن و سلامتی کی ضامن رہی ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کو معاشی خوشحالی کے اُس زینے تک پہنچا دیا کہ وہ پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بن گیا، اور برطانیہ اس بات پر مجبور ہو گیا کہ وہ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اس خطے پر حملہ آور ہو جائے اور پھر اس نے فخر سے اعلان کیا کہ برصغیر اس کے﴿ گرتے ہوئے﴾تاج کا نگینہ ہے۔ اور یہ اسلام ہی تھا جس نے کئی صدیوں تک اس خطے میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کو بے مثال ہم آہنگی عطا کیے رکھی۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ برصغیر پر اسلام کی ہزار سالہ حکمرانی کے باوجود یہاں ہندو بدستور اکثریت میں ہیں،جواس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا دورِ حکمرانی اُس دور میں موجود کفریہ حکومتوں سے یکسر مختلف تھا، جن میں حکمرانوں کے مذہب سے مختلف مذہب رکھنے والے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا ، سپین پر عیسائی حکمرانی اور ایشیائ پر ہلاکو خان کی جابرانہ حکمرانی اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ 1857ئ کی جنگِ آزادی کے دوران انگریزوں کے خلاف ہندومسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ برطانیہ کی سامراجی سرمایہ دارانہ حکمرانی کی بانسبت وہ اسلامی حکمرانی کے تحت زیادہ بہتر ہیں۔

 

اے مسلمانانِ پاکستان !

 

آپ ہی پورے برصغیر کی حکمرانی کے حق دار ہیں، اور آپ اس تبدیلی کا آغاز کرنے پر قادر ہیں جو اِس غیر مستحکم، دِگرگوں اور منتشر صورتِ حال کو بدلنے کے لیے درکار ہے۔ آپ کی فوج مسلم دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے،حتی کہ یہ حجم میں امریکہ کی فوج سے بھی بڑی ہے اور بلاشبہ آپ کی فوج امریکی فوج سے زیادہ بہادر اور نڈر ہے اوراس کے جوان جذبۂ شہادت سے سرشار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ وسائل، زرعی میدانوں، دریائوں، توانائی کے ذخائر اور معدنیات سے نوازا ہے، جو کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں سے زیادہ ہیں۔ اور پاکستان کے باشندے زندہ ومتحرک ہیں، جو ہر مصیبت اور چیلنج کے وقت مددونصرت کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

 

آپ خلافت کے قیام پر پوری طرح قادر ہیں اور آپ کے دشمن آپ کی اس صلاحیت سے آگاہ ہیں اور آپ سے خوف زدہ ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے منسلک سینئر صحافی 'سیمور ہرش ‘نے نومبر2009میں ''غیر مستحکم پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ‘‘کے نام سے ایک وسیع الاثر آرٹیکل لکھا،جو امریکہ کے مقتدر حلقوں میں بڑے پیمانے پر گردش میں رہا ؛اس آرٹیکل میں سیمور ہرش نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی 'را‘ کے سینئر آفیسر کی یہ بات نقل کی ہے: ''ہم پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق فکر مند ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ مُلا اقتدار پر قابض ہو جائیں گے ، بلکہ ہماری فکرمندی پاکستان کی افواج میں موجود اُن سینئر افسران کے بارے میں ہے ، جو خلافت پسند ہیں...کچھ لوگ جن پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں ،وہ اسلامی فوجی قیادت کا تصور رکھتے ہیں ‘‘۔

 

پس اپنی ذمہ داری کو ادا کرو اور زرداری کواُکھاڑ کر خلافت کے قیام کے ذریعے زرداری کوکشمیر کا سودا کرنے سے روک دو،وہ خلافت جو اُمت کے وسائل کو یکجا کرے گی اور تمام تر برصغیر کو اسلام کے عدل کے سائے تلے لائے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

﴿﴿عصابتان من امتی احرز ھما اﷲ من النار: عصابۃ تغزو الھند، وعصابۃ تکون مع عیسی بن مریم علیہما السلام﴾﴾
''میری امت کے دو گروہوں کو اﷲ آگ سے بچائے گا؛ ایک وہ گروہ جو ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا‘‘﴿النسائی و احمد﴾

اورابوہریرہ(رض) نے بیان کیا:

 

﴿﴿وَعَدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْهِنْدِ فَإِنْ أَدْرَكْتُهَا أُنْفِقْ فِيهَا نَفْسِي وَمَالِي فَإِنْ أُقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ أَرْجِعْ فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ﴾﴾

''رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا، اگر میں اس وقت موجود ہوا تو میں اپنا مال اور اپنی جان اس میں خرچ کرونگا،اگر میں قتل کیا جائو ںتو میں افضل شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میںزندہ واپس لوٹا تو ﴿گناہوں سے﴾پاک ہوں گا‘‘﴿النسائی، الحاکم،احمد﴾۔

Read more...

حکمرانوں کی بوکھلاہٹ - حزب التحریر کو دہشت گردی سے منسلک کرنے کی ناکام کوشش! حزب التحریر کراچی سے آٹھ ممبران کی گرفتاری کی من گھڑت خبر کی تردید کرتی ہے

حزب التحریر کی اعلیٰ فکری اور سیاسی جدوجہد اور اس کے معاشرے میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوز سے بوکھلا کر حکمرانوں نے حزب التحریر کو ایک عسکریت پسند جماعت ثابت کرنے کے لیے میڈیا میں جھوٹی خبریں شائع کروانی شروع کردی ہیں۔ ۷ مارچ ۲۰۱۰ء کو مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر کی گئی کہ کراچی میں حزب التحریر کے آٹھ اراکین کو اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ اور پھر یہی خبر پرنٹ میڈیا میں بھی گردش کروائی گئی۔ حزب حزب اس من گھڑت خبر کی تردید کرتی ہے اور امت کو باور کرانا چاہتی ہے کہ حزب التحریر کا کوئی کارکن ان دنوں کراچی سے گرفتار ہی نہیں ہوا کجائ یہ کہ اس کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا ہو۔ دراصل آج کل لاہور ہائی کورٹ میں حزب التحریرکی پابندی کے خلاف رِٹ پٹیشن زیر سماعت ہے جسے دائر کیے چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ابھی تک حکمران حزب التحریر کے خلاف دہشت گردی پر مبنی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اس قسم کے من گھڑت واقعات کو میڈیا پر اچھال کر حکومت اپنے لئے جھوٹے ثبوت تراشنا چاہتی ہے۔

اس حقیقت سے پوری دنیا واقف ہے کہ حزب التحریر 1953 سے امت میں خلافت کے قیام کے لئے فکری اور سیاسی جدوجہد کر رہی ہے اور وہ خلافت کے قیام کے لیے کسی بھی قسم کی عسکری اور فرقہ وارانہ ذرائع اختیار کرنے کو حرام گردانتی ہے۔ حزب التحریر کے اس دعوے کا سب سے بڑا ثبوت وزارت داخلہ کا ۲۰نومبر۲۰۰۳ وہ نوٹیفیکیشن ہے جس میں حزب التحریر پر پابندی کا اعلان تو کیا گیا لیکن پابندی کی کوئی ایک وجہ بھی پیش نہ کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے۲۰۰۴ اور پھر ۲۰۰۵ میں حزب التحریر کے اراکین کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ پابندی کا نوٹیفکیشن ناقص ہے کیونکہ اس میں پابندی لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔

ہم ان حکمرانوںکو بتا دینا چاہتے ہیںکہ حزب اپنی فکری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی اور اس قسم کا جھوٹا میڈیا پراپیگنڈا حزب کی جدوجہد کو نہیں روک سکتا۔ نیز خلافت کے قیام سے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ضرور پوری ہو کر رہے گی

﴿...ثما تکون خلافۃ علی منھاج النبوہ﴾ ''..

.اورپھر خلافت قائم ہو گی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقے پر‘‘ ﴿مسند احمد﴾۔

Read more...

حزب التحریر کی شدید سیا سی مہم کے باعث اوباماکا دورہ انڈونیشیا منسوخ : جب انڈونیشیا کے عوام حزب التحریر کے ساتھ مل کر اوباما کو انڈونیشیا آنے سے روک سکتے ہیں تو پاکستان کے عوام حزب کے ساتھ مل کران معمولی امریکی اہلکاروں کو کیوں نہیں؟

امریکی صلیبی صدر باراک اوباما کے دورہ انڈونیشیا کے اعلان کے بعد حزب التحریر نے اس کے خلاف بھرپور سیاسی مہم کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں حزب نے 14مارچ کو بھی ہزاروںمظاہرین کے ساتھ انڈونیشیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ، اور اوباما کے دورہ کے موقع پر امریکی کونسلیٹ کے سامنے 5000سے زائد مظاہرین کے ساتھ احتجاجی مظاہرے کا اعلان کر رکھا تھا۔ مزید برآں حزب کی کوششوںکے باعث1000سے زائدعلمائ نے اوباما کا دورہ انڈونیشیا مسترد کر دیا۔ اس شدید عوامی ردعمل نے امت کی کافر صلیبی امریکہ سے نفرت کو اس قدر واضح کر دیا کہ اوباما کو اپنا دورہ منسوخ کرنے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی، تاہم اس نفرت کو چھپانے کیلئے اوباما نے اپنے دورہ کی منسوخی کو ہیلتھ ریفارم بل کی منظوری کی مصروفیت سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی۔ یاد رہے کہ نہ صرف یہ دورہ پہلے بھی ایک بار تاخیر کا شکار ہو چکا ہے بلکہ اور انڈونیشیا وہ مقام ہے جہاں مسٹر اوباما نے اپنے بچپن کے چا ر سال گزارے ہیں، جس کے باعث سیکولر میڈیااور ایجنٹ حکمرانوںنے اوباما کو خوش آمدید کہنے کیلئے اس کا شدید پروپیگنڈہ بھی کر رکھا تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں کی طرح انڈونیشیا کے غدار حکمران بھی اپنے امریکی آقاؤں کا دم بھرتے ہیں اور ان قاتلوں کو اپنی ماہانہ اور سالانہ رپورٹیں پیش کرتے رہتے ہیں تاہم انڈونیشیا کے مسلمان عوام نے حزب التحریر کے ساتھ مل کر اوباما کو انڈونیشیا میں گھسنے نہیں دیا۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے عوام حزب التحریر کی صفوں میں ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو کر ان امریکی وائسراؤں کا انکار کریں ، اور ان معمولی درجے کے امریکی اہلکاروں سے لے کر اوباما تک اور ان امریکی ایجنٹوں پر جو کہ حکومت اوراپوزیشن میں موجود ہیں، پاکستان کی زمین تنگ کر دیں۔

وقت آ گیا ہے کہ اہل قوت میں سے مخلص لوگ دیکھ لیں ،کہ امت اٹھ چکی ہے اور وہ امریکی غلامی سے خلافت کے قیام کے ذریعے نجات چاہتی ہے ، پس وہ حزب التحریر کو نصرت دیں اور خلافت کے قیام کے ذریعے اس خطے کو صلیبیوں کاگورا قبرستان بنا دیں۔ اور اللہ کیلئے یہ ذرا بھی مشکل نہیں!!!

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک