السبت، 28 جمادى الأولى 1446| 2024/11/30
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کراچی کی خراب صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434ہجری،بمطابق فروری 2013

 

حزب التحریرولایہ پاکستان نے دنیا کے تیسرے بڑے شہرکراچی کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔


ا)مقدمہ:کراچی ایک سیاسی،نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز بننے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن ایک کے بعد دوسرے امریکی ایجنٹ حکمران نے ایک پالیسی کے تحت کراچی کواس کے کردار کی ادائیگی سے روک رکھا ہے۔

کراچی جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے ،آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر،پاکستان کا سب سے بڑا شہر،پاکستان کا سابق دارلحکومت اور ایک ساحلی شہر ہے جس کے پاس دو بندرگاہیں ہیں۔تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔اس شہر میں پشاور اور کابل سے بھی زیادہ پشتون مسلمان بستے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ اور پنجابی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے ،مہاجر،مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے وقت شمالی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پانچ سو سال سے بھی زائد عرصے تک یہ اردو بولنے والے مسلمان برصغیر میں اسلامی حکومت میں اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کے خلاف برپا ہونے والی مزاحمت میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ لہذا کراچی کے مسلمانوں کا نہ صرف پورے پاکستان سے قدرتی رابطہ اور تعلق ہے بلکہ ان کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی تعلق اور روابط ہیں۔ ایک طرح سے کراچی قدرتی طور پر پورے پاکستان کو سیاسی و نظریاتی طاقت فراہم کرتا ہے۔کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہے اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔لیکن اقتدار میںآنے والی ہر حکومت نے کراچی کو اسلام کی قوت سے محروم کرکے اس خطے میں کراچی کو اس کے قدرتی کردار کی ادائیگی سے روکا ہے۔ ایجنٹ حکمرانوں نے اس شہر میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کی اور مسلسل فسادات کے ذریعے اس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔حکمرانوں کے انتہائی منفی کردار کے باوجود کراچی نے ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم تھیں ،چاہے ہندوستان سے جنگ ہو یا اسلامی تحریکوں کی پرورش اور ان کو پروان چڑھانا یا ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران اپنے بھائیوں کی بھر پور مددو معاونت ہویا رفاحی کاموں کے لیے سرمائے کی فراہمی، ہر اہم موقع پر اس شہر اور اس کے رہنے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔


ب)سیاسی قدرو اہمیت:کراچی کو مفلوج کرنے کا مقصد
ب1۔جمہوریت حقیقت میں صرف ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اقتدار میں ہوں کیونکہ وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگوں کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ایک طرف جمہوریت ایک پوری آبادی سے لاتعلق ہو جاتی ہے اور انھیں مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریت اقتدار میں بیٹھے لوگو ں کو دوسروں کے حقوق کو غصب اور ان کے خلاف جرائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصراور گروہوں کوسیاسی جماعتوں کے ذریعے ر یاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔یہ پشت پناہی ریاستی اداروں پر اثرو رسوخ کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہو کر ، اسمبلیوں کے ذریعے قوانین بنوا کر اور انتظامی احکامات کے اجرأ کے ذریعے۔ جمہوریت طاقتور گروہوں ،قانون سازوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تعلق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لہذا اس حقیقت میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر مکمل تحفظ کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ب2۔جمہوری نظام میں لوگوں کا خصوصاً نسل کی بنیاد پر جماعتیں تشکیل دینا جمہوریت کا اہم مظہر ہے کیو نکہ اکثریتی گروہوں کی ضروریات کو اقلیتی گروہوں کی ضروریات پر فوقیت دی جاتی ہے۔پھر یہ لسانی گروہ اپنے حقوق اور ریاست کے مال میں اپنے حصے کے حصول کے لیے دوسرے گروہوں سے لڑتے ہیں۔یہ صورتحال ریاست کے مختلف شہریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے میں اس تقسیم کو قوت فراہم کرتی ہے۔اور کراچی کئی دہائیوں سے لسانی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
ب3۔امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کراچی مسلسل اس دشمنی کی آگ میں جلتا رہے۔وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

د)قانونی ممانعت:دشمنی کا خاتمہ اور کراچی کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد و یگانگت
د1۔جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیااور یثرب کومدینے میں تبدیل کرکے پہلی اسلامی ریاست قائم کی،بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے ،اسلام پر مبنی ہے۔اسلام احکامات اور حرمات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں،جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے ۔لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوءں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ7میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست ان تمام افراد پر جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں مسلم ہوں یا غیر مسلم حسب ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذکرے گی :ا)مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تما م اسلامی احکامات نافذکرے گی۔ب)غیر مسلموں کو ایک عام نظام کے تحت ان کے عقیدے اور عبادت کی آزادی دی جائے گی‘‘۔
د2۔خلافت میں سیاسی جماعتیں کسی لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہیں۔سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی فرد یا حکومتی اہل کار کو غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا جائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ21میں اعلان کیا ہے کہ'' حکا م کے احتسا ب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیا سی پا رٹیا ں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حا صل ہے بشر طیکہ ان پا رٹیوں کی بنیا د اسلا می عقیدہ ہواور جن احکا مات کی یہ پا رٹیا ں تبنی کر تی ہوں وہ اسلا می احکا ما ت ہوں ۔کوئی پا رٹی بنا نے کے لیے کسی N.O.C(اجا زت ) کی ضرو رت نہیں ، ہا ں ہر وہ پارٹی ممنو ع ہو گی جس کی اسا س اسلا م نہ ہو‘‘۔
د3۔معاشرے کی عمومی فضأ اسلام کی بنیاد پر ہو گی جو تمام لسانی اکائیوں کے درمیان مشترک رشتہ ہے۔تعلیمی نظام،میڈیا،حکمرانوں کا طرز عمل اور امت جو ان کا احتساب کرے گی، ان سب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوگی جس کے نتیجے میں لسانیت پر مبنی پست سوچ کا خاتمہ ہوجائے گا۔اس کے علاوہ اگر چہ علاقائی زبانیں موجود ہوں گی لیکن ریاست کی سرکاری زبان صرف عربی ہو گی جو کہ قرآن کی زبان ہے، اللہ کے رسولﷺ کی زبان ہے اور قانون کی زبان ہے۔اس کے نتیجے میں زبان کی بنیاد پر اس کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے سامنا ہے۔ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 8میں لکھا ہے کہ ''عر بی زبان چو نکہ اسلام کی زبا ن ہے ، اس لیے ریا ستی زبان صرف عر بی ہی ہو گی‘‘۔
نوٹ:خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا ۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریرکی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات21,8,7سے رجوع کریں۔


ج)پالیسی :کراچی کو اس کی مکمل استعداد کا حامل بنایا جائے گا
ج1۔اسلام کا مکمل نفاذ ،جو کہ تمام مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک رشتہ ہے،لوگوں کے درمیان ہم آہنگی لائے گا اور کراچی تمام لسانی نفرتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کے زیر سایہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔خلافت اپنے تمام شہریوں کے معاملات کا ،بلا امتیازرنگ،نسل،مذہب،مسلک یا جنس، خیال اور تحفظ کرے گی۔
ج2۔سیاسی جماعتیں اسی وقت تک کام کرسکیں گی جب تک وہ اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گی اور امت کے درمیان لسانی نفرتوں کے بیج نہیں بوئیں گی۔ان کے اراکین غیر ملکی سفارت کاروں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکیں گے اور تمام کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں کو بند کردیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی

صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے کراچی کی خراب صورتحال میں تبدیلی کے لیے پالیسی جاری کر دی صرف خلافت ہی کراچی کو اس کی اصل استعداد کے مطابق مقام دلوائے گی

کراچی ایک سیاسی، نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز ہے۔ کراچی جس کی آبادی دو کڑوڑ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کا سابق دارلحکومت ہے۔ تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔ کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہیں اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔ لیکن امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود ایجنٹوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کراچی مسلسل لسانی نفرتوں کی آگ میں جلتا رہے۔ وہ نا صرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لیں ہیں۔ اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیا اور یثرب کو مدینے میں تبدیل کر کے پہلی اسلامی ریاست قائم کی، بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔ تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے، اسلام پر مبنی ہے۔ اسلام احکامات اور حرومات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔ خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں، جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔ لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے۔ لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس کے علاوہ خلافت میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل لسانی بنیادوں پر نہیں ہو سکتی بلکہ سیاسی جماعتیںصرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں، حکومتی اہلکاروں اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو غیر ملکی سفیروں سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے بھی بند کر دیے جائیں گے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی

ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

حزب التحریر کے امیر سے اہل شام اور مخلص انقلابیوں کو پیغام

رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت کے عظیم دن کے حوالے سے حزب التحریر کے امیر جلیل القدر عالم عطا بن خلیل ابو الرشتہ حفظہ اللہ کا اہل شام اور مخلص انقلابیوں کو وڈیو پیغام کامتن ۔اسی مہینے میں آپ ﷺ نے ہجرت بھی کی اوریہی اُس عظیم الشان اسلامی ریاست کے قیام کا مہینہ بھی تھاجس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو عزت ملی،اور یہ ریاست ایک بار پھر بہت جلد قائم ہوگی،انشأ اللہ۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کے مسکن شام میں اپنے لوگوں اورمخلص انقلابیوں کے لیے


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


الحمدالا للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ واصحابی ومن ولاہ وبعد،

(( وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ ))

''انہوں نے تو مکاری کی انتہا کردی لیکن اللہ بھی ان کی مکاری کو دیکھ رہا ہے اگرچہ ان کی مکاری اس قدرشدید ہے کہ اس سے پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں‘‘۔(ابراھیم:46)


استعماریوں ،ان کے ایجنٹوں اور ان کے دھڑوں کے بدترین لوگ تمہارے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں۔شام میں اسلام کی حکمرانی کو روکنے کے لیے یہ سب یکجان ہو کر مکر اور سازش کر رہے ہیں،تاکہ اسی سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھا جائے اور صرف چہروں کی تبدیلی کے ذریعے لو گوں کو یہ باورکرادیا جائے کہ تبدیلی آ گئی ہے!آج تم دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو کہ امریکہ ،اس کے اتحادی اور اس کے ایجنٹوں نے دونوں اطراف سے تمہارے خلاف بدی کی قوتوں کو اکٹھا کرلیا ہے :ایک طرف سرکش بشار کے جرائم ہیں جن سے انسانوں کے ساتھ درخت اور پتھر تک محفوظ نہیں،جبکہ دوسری طرف سے استنبول،قاہرہ اور پیرس میں پے در پے اجتماعات ہورہے ہیں جس کا مقصد ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے جوسیکولر عوامی جمہوری نظام کی تشکیل کرے گی، جیسا کہ وہ خود کہہ رہے ہیں،تاکہ وہ اللہ کی جگہ حرام اور حلال کا فیصلہ خود کر سکیں،

(وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہَذَا حَلاَلٌ وَہَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللّہِ الْکَذِبَ لاَ یُفْلِحُون)

''کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو کہ اللہ پر بہتان بازی کرنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں‘‘۔(النحل:161)


انہوں نے اپنے شرانگیز منصوبوں کو تیز کردیا ہے،جس میں قتل وغارت گری ،کلسٹر بموں کی بارش،جلاکر راکھ کردینے والے مائع مواد کے ڈرم،زہریلی گیس کے ساتھ ساتھ وحشت ناک تشددبھی شامل ہے، ایسا تشدد کہ جس سے جنگل کے درندے بھی کانپ اٹھیں۔۔۔ اس سب کچھ کے ذریعے یہ شیاطین اس بات کی امید کرتے ہیں کہ انقلابی اسلام کو زندگی کے معاملات سے الگ کرنے کو قبول کرلیں گے اور اس قاتل ٹولے کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور مسلسل مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں اور یوں مقدس شام میں سیکولر جمہوری نظام کا ڈھانچہ تبدیل نہ ہوگا اور امریکی اثرو رسوخ برقرار رہے گا ۔۔۔لیکن یہ شیاطین یہ بھول گئے کہ شام اسلام کا قلعہ ہے،اسلام کا مسکن ہے۔شام کے لوگ اس باطل کو ہر گز قبول نہیں کریں گے چاہے کچھ عرصے کے لیے وہ اس کے دباؤ میں آہی جائیں اس لیے کہ یہ خباثت انتہائی رسوائی کے ساتھ ذائل ہو نے والی ہے انشأ اللہ۔اس کے علاوہ یہ شیاطین یہ سمجھ نہیں رکھتے کہ حق نے ہر صورت باطل کو شکست فاش دینی ہے۔

(بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذَا ہُوَ زَاہِقٌ وَلَکُمُ الْوَیْْلُ مِمَّا تَصِفُونَ )

''بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ نیست ونابود ہو جاتا ہے اور تم جو کچھ کہتے ہو تمہارے لیے تو بربادی ہے ‘‘۔(انبیأ:18)


اسلام کے مسکن شام کے محترم لوگواوراے مخلص انقلابیو:
یہ جو مکاری اورسا زشیں کر رہے ہیں یہ انتہائی خبیث منصوبہ ہے۔اس منصوبے کا سرغنہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور اس خبیث منصوبے کو ان کے ایجنٹ اور پیروکار نافذ کر رہے ہیں:اندرون ملک قتل وغارت کے بازار کو گرم رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ قومی اتحاد اور عسکری کونسل کو قبول کر لیں۔۔۔یوں اس منصوبے کو نافذ کرنے کے دو زہریلے آلے ہیں ۔ایک طرف سے بشار کی جانب سے قتل وغارت اور تباہی کے جرائم کا زہر اور دوسری طرف سے قومی اتحاد کا زہریلا جال جس کو امریکہ کی راہنمائی میں بنا جارہاہے، تا کہ اپنے ہی بنائے ہوئے موجودہ سرکش کے کردار(بشار) کے خاتمے پر اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ان(قومی اتحاد اور کونسل) کو اس کے تخت پر بیٹھایا جاسکے۔۔۔قومی اتحاد اس اقتدار پر بیٹھنے کی امید رکھ رہا ہے جبکہ سرکش بشار اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے،قومی کونسل کے جال کو اس کی جگہ لینے کے لیے تیار کیا جاچکا ہے ،وہی امریکہ جس نے اس کو بنایاتھا اب اس کی باری ختم ہونے پر اس کے ساتھ بھی وہی کچھ کرے گا جو اس نے اس جیسے دوسرے ایجنٹوں کے ساتھ کیا جب ان کا کردار ختم ہوگیا۔اس کے علاوہ امریکہ یہ امید کر رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ امت آقا اور ایجنٹ دونوں کی نجاست سے ملک کو پاک کرے،وہ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرا ایجنٹ لاکر شام میں اپنے اثرو رسوخ کو طول دے سکتا ہے۔۔۔اگر اس سرکش بشار کے پاس ذرا بھی عقل ہو تی تو اس عوامی انقلاب کے ابتدائی مہینوں میں ہی موقع کو غنیمت جان کر اپنی جان بچاکراور چہرہ چھپا کر بھاگ جاتا،یہ اس سے بہتر تھا کہ اس کو پکڑا جائے یا ایک ایسے مجرم کے طور پر قتل کردیا جائے جس پر اللہ،اس کے رسول ﷺاور موٗمنوں کی لعنت ہو

((إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى))

''بے شک جو مجرم ہونے کی حالت میں اپنے رب کے پاس آیا تو اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جئے گا‘‘۔(طہ :74)


یہ ایک مکر اور چال ہے جو انہوں نے اس امید پر چلی ہے کہ شام اور اہل شام کو سرنگوں کرنے پر مجبور کیا جائے،تاکہ وہ قومی اتحاد کی حکومت کو قبول کریں،جو اپنی اساس کے لحاظ سے سیکولر اور پر فریب دھوکہ ہو گی !وہ یہ بھی گمان رکھتے ہیں کہ شام اور اہل شام مجرموں کی طرف سے بہائے گئے پاکیزہ خون اور انقلابیوں کی ان عظیم قربانیوں کو بھول جائیں گے۔۔۔لیکن ان کا یہ گمان اللہ کے اذ ن سے باطل ہے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور کانوں سے سنیں گے کہ یہ دھوکے میں پڑے تھے اور ان کی مکاری غارت ہوگئی

(وَمَا کَیْْدُ الْکَافِرِیْنَ إِلَّا فِیْ ضَلَالٍ)

''اور کافروں کی سازشیں گمراہی کے سوا کچھ نہیں‘‘(الغافر:25)۔

 

وہ یہ بھی بھول گئے یا اپنے آپ کو بھولنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ شام میں ایسے مضبوط جوان مرد ہیں جو اپنے رب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں،جن کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی اسوہ حسنہ ہے،جو ان سازشوں پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے ہوئے۔ وہ نہ تو اس ظلم پر خاموش رہیں گے اور نہ ہی کبھی بھی اس مقدس خون اور جدوجہدکو بھولیں گے۔ وہ نہ تو بوڑھوں اور بچوں کی چیخ وپکار کو بھلادیں گے اورنہ ہی پاکباز خواتین،یتیموں اور بیواوں کی آہ وبکا کو نظر انداز کریں گے۔۔۔اس سرکش کے جرائم ان کی قوت میں اور اضافہ کر تے ہیں۔وہ امریکہ اور مغربی استعماری کفّار کے جرائم کبھی بھی نہیں بھولیں گے چاہے یہ قومی کونسل کی اصل حقیقت کو چھپانے کے لیے کتنے ہی جتن کرلیں۔بلکہ یہ تمام جرائم اور شیطانی چالیں ان کی جدو جہد کو تیز تر کررہی ہیں۔

(الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل)

'' ان لوگوں سے جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ لوگ تمہارے خلاف اکھٹے ہو چکے ہیں تم ان سے ڈرو تو یہ ان کے ایمان کو مزید مضبوط کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ ہمارے لیے کا فی ہے اور بہترین کارساز ہے‘‘(ال عمران :173)


اسلام کے مسکن شام کے محترم لوگو اوراے مخلص انقلابیو:
سرکش بشار اور اس کے کارندے مایوسی کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں جس سے نکلنااب ان کے لیے ممکن نہیں۔جس قدراس کاظلم بڑھ رہا ہے اس کے گردن کے گرد رسی اسی قدر سخت ہو تی جارہی ہے۔اس کے ساتھ لڑنے والے اس کے کارندے ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں،سوائے اس شخص کے جو آنکھوں اور دل کا اندھا ہو۔اب تو روس نے بھی ،جو امریکہ کے فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہاتھا جس نے امریکہ کے ساتھ ایک ایجنٹ کی جگہ دوسرے ایجنٹ لانے پر اتفاق کرلیاتھا ، دوسروں کی طرح اپنے شہریوں کو شام سے نکالنا شروع کرچکا ہے کیونکہ اس کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اس سرکش کا اقتدار ختم ہو رہا ہے ۔یوں یہ سرکش بشاردنیاوی اور اخروی رسوائی کے داغ لیے سر کے بل کھائی میں گرے گا۔لیکن اے مخلص انقلابیو تم جس حق اور خیر پر ہو اس پر ثابت قدم رہو،عنقریب یا تھوڑی تاخیر کے ساتھ آنے والی اللہ کی مدد سے مطمئن رہو۔اللہ تعالی نے صرف اپنے رسولوں سے ہی مدد کا وعدہ نہیں فرمایا بلکہ مومنوں سے بھی وعدہ کیا ہے

(إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُوا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ)

''ہم ضرور اپنے رسولوں اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی مدد کریں گے‘‘(الغافر:51)۔


لہذااپنی قوت سے حق اور اہل حق کی مدد کرو،اللہ ،اس کے رسول ﷺاور مومنین کو نصرۃ فراہم کرو۔ خلافت اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو نصرۃ دو اورخلافت کے قیام کے لیے حزب التحریرکی حمائت کرو۔صرف اسی صورت میں اللہ عز وجل کے سامنے یہ چیزیں تمہاری گواہی دیں گی:وہ پاکیزہ خون جو بہا یا گیا ،وہ پاکدامن عورتیں جن کی عزتیں پامال کی گئیں،وہ خواتین جو بیوہ ہوگئیں،وہ بچے جو یتیم کیے گئے،وہ بوڑھے جن کی تذلیل کی گئی،حتی کہ وہ جانور جن کو ہلاک کیا گیا ۔یہ سب تمہارا ذکر بھلائی سے کریں گے،یہ خون اور جدوجہد رائیگاں اوربے کار نہیں جائیں گے ۔


اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے فرشتے اللہ کے دین ،اس کے حاملین اور نبوت کے طرز پر قائم ہونے والی خلافت کی نصرت کرنے پرتم پر رشک کریں گے۔۔۔ تم دنیا میں بھی عزت مند اور آخرت میں اللہ کی مخلوق میں سب سے بہترین ہستی محمدﷺ ، ان کے خاندان، ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اس کے دین کے سچے اور کامیاب انصارکے ساتھ ہو گے۔۔۔ابن زرارہؓ،ابن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ جیسے رسول اللہ ﷺکے انصار کے ساتھ۔خاص کر یہ عظیم مہینہ ،ربیع الاول کا مہینہ ،جو کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت،بعثت اور مدینہ کی طرف ہجرت کا مہینہ ہے،جس میں اسلام کی عظیم ریاست قائم ہو گئی تھی،اسی مہینے میں آپ ﷺ اپنے خالق حقیقی سے بھی جاملے تھے،جس کے بعد خلافت راشدہ خلافہ علی منہاج نبوۃ کی ابتداء ہوئی تھی۔۔۔پھر اس کے بعد مورثی خلافت کا دور آیا،اس خلافت کے بعد ''جابرانہ،،حکمتوں کا دور آگیا،جس میں آج ہم ہیں ،اسی کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور ہو گا،رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک صحیح حدیث میں جس کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور الطیالسی نے اپنی مسند میں حذیفہ بن الیمانؓ سے روایت کی ہے ،بیان کیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یر فعھا اللّہ إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ ، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون، ثم یر فعھا إذا شاء أن یرفعھا ۔ ثم تکون ملکاً عاضاً، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یرفعھاإذا شاء اللّہ أن یرفعھا۔ ثم تکون ملکاً جبریۃ، فتکون ما شاء اللّہ أن تکون ، ثم یر فعھا إذا شاء أن یرفعھا۔ ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ، ثم سکت)

''نبوت تمہارے درمیان اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ جب چاہے گا اس کو اٹھا لے گا،جس کے بعد نبوت کے طرز پر خلافت ہو گی جو اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،اس کے بعد مورثی خلافت ہوگی وہ بھی اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اس کو بھی اٹھا لے گا جس کے بعد جابرانہ حکومتوں کا دور ہو گا اور وہ بھی اس وقت تک رہیں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر ان کو بھی اٹھا لے گا جس کے بعد پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی اور رسول اللہ ﷺ یہ فرماکر خاموش ہوگئے‘‘۔


اس لیے اللہ کے دین کی نصرت کے لیے دوڑو،خلافت کی جدوجہد کرنے والوں کی نصرت کے لیے جلدی کرو، حزب التحریرکی نصرت کی طرف لپکو،یوں انصار رضوان اللہ علیہم کی سیرت کو دہرایا جائے گا،اسلام اور اہل اسلام عزت مند ہو جائیں گے اور کفر اور اہل کفر ذلیل ہو جائیں گے،

((وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ))

'' اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ کی مدد پر وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے،وہ زبرست اور مہربان ہے‘‘(الروم:5,4)

 

Read more...

یوم کشمیر کے موقع پر پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربراہ سعد جگرانوی نے ایک اجتماع سے خطاب کیا صرف خلافت ہی کشمیر کو آزاد اور برصغیر میں اسلام کو دوبارہ ایک طاقتور قوت بنائے گی

یوم کشمیر کے موقع پر پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے تیسرے بڑے شہر کراچی میں ایک بہت بڑے اجتماع سے سعد جگرانوی نے ایک پرجوش خطاب کیا۔ سعد جگرانوی نے، جو پاکستان میں حزب التحریر کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے سربارہ ہیں، سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کی پالیسیوں کو بھر پور تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ہندو ریاست کو مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی جرأت ہوتی ہے۔ جناب سعد جگرانوی نے اجتماع میں موجود لوگوں، جن میں کئی اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین بھی تھے، کو یاد دہانی کرائی کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور سے حکمرانوں کا آقا امریکہ بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ بھارت کو مسئلہ کشمیر کو مستقل دفن کرنے، افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو بڑھانے، بھارتی معیشت کو طاقتور بنانے کے لیے پاکستان کی مارکیٹ تک اس کو رسائی فراہم کرانے اور پاکستان کی فوجی خصوصاً ایٹمی صلاحیت میں کمی کروانے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اس غداری کا امریکہ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور بھارت کو اپنے حلقہ اثر میں لانے کے لیے اس نے اپنے دروازے کھول دیے اور اب بھارت نہ صرف افغانستان میں زبردست اثرورسوخ حاصل کر چکا ہے بلکہ اسے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر سے دستبرداری اور ہماری افواج کاقبائلی علاقوں میں امریکی فتنے کی جنگ میں ملوث ہو جانے کے بعد بھارت نے سکون کا سانس لیا ہے اور رہی سہی قصرچند دن قبل ہی امریکہ کی خواہش پر افواج پاکستان کی جنگی ڈاکٹرائن میں جنرل کیانی نے اہم تبدیلی کرتے ہوئے "اندرونی خطرے" کو پاکستان کی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دے کر پوری کر دی ہے۔ یہ ہے وہ صورتحال جس کی وجہ سے بھارت ہماری افواج کے خلاف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرتا ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف مسلسل زیادتیوں کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

سعد جگرانوی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جب حزب التحریر پاکستان میں خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور جو کچھ اللہ سبحانہ و تعالی نے اس امت مسلمہ کو بخش رکھا ہے وہ ایک قیادت تلے جمع ہو جائے گاتو اس خطے میں اسلام کی بالادستی اور کشمیر کی آزادی کا خواب بھی انشأ اللہ پورا ہو جائے گا۔ انھوں نے اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ امریکہ اور بھارت کا افغانستان پر اثرورسوخ مکمل طور پر پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی فضائی اور زمینی راہداری، انٹیلی جنس اور اس کی پیشہ وارانہ قابل فوج کی مدد کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی کہ ہندو ریاست ایک کمزور ریاست ہے جس کی وجہ سے وہ ٹوٹ کر بکھر سکتی ہے۔ اس کی بنیاد میں عصبیت اس حد تک موجود ہے کہ کئی علیحدگی پسند تحریکیں برسرِ پیکار ہیں جو بھارت کی تقسیم چاہتی ہیں۔ بھارت میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے غیر ہندوں شہریوں، یہاں تک کہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوں کو بھی، تحفظ اور خوشحالی فراہم کرسکے۔ اس کے علاوہ ہندو ریاست تیل و گیس کے لیے مسلم علاقوں پر انحصار کرتی ہے جن تک پہنچنے کے لیے پاکستان کی اجازت ضروری ہے۔

جناب سعد جگرانوی نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ خلافت خطے کی صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں تبدیل کر دے گی۔ اسلام جنوبی اور وسطی ایشیأ کے مسلمانوں کو جوڑنے والی قوت ہے۔ اس خطے میں مسلمانوں کی تعداد پچاس کروڑ سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً بیس کروڑ ہندو ریاست میں بستے ہیں۔ مسلمانوں کی مجموعی فوج کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ ہے جبکہ ہندوستان کی فوج کی تعداد دس لاکھ ہے۔ خلافت کی دعوت جنوبی اور وسطی ایشیأ میں پھیل چکی ہے لہذااس خطے میں مسلمانوں کی سرزمینوں کو ملا کر ایک اسلامی ریاست کو قائم کرنے کے لئے درکار تمام عوامل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ خطے میں ایسے کئی غیر مسلم ممالک ہیں جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے، جو اپنے ملکوں میں امریکہ اور بھارت کی مداخلت کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ یہ ممالک بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو کر ہماری طاقت میں تقویت کا باعث ہوں گے۔

سعد جگرانوی نے اپنی پر جوش تقریر کے آخر میں اجتماع سے مطالبہ کیا کہ وہ اللہ کے ساتھ اور اس دین اسلام کی ریاست یعنی خلافت کے قیام کے عہد پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ انھوں نے افواج سے مطالبہ کیا کہ فوراً خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة فراہم کریں تا کہ پھر مسلم علاقوں کی بازیابی کے اہم کام کو شروع کیا جاسکے۔

میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

تصویرکے لئے یہاں پر کلک کریں

 

Read more...

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے خاتمے کے لیے پالیسی دستاویز جاری کر دی خلافت بلوچستان کو امن، خوشحالی اور عزت دار مقام فراہم کرے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے حوالے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں روزانہ لوگ مسلمان مارے جا رہے ہیں، ان کو اغوا کیا جا رہا ہے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس لیے اور بھی افسوس ناک ہے کہ بلوچستان امت مسلمہ کا تاج ہے۔ اس کے لوگوں نے اس طرح اسلام قبول کیا کہ پورا صوبہ خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔ اس کے لوگ اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم اور اس سے مخلص ہیں۔ انھوں نے برطانوی استعمار کے حملے کی زبردست مزاحمت کی تھی۔ یہ عزت دار اور شاندار لوگ ہیں جو آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔

اس پالیسی کے ساتھ ریاست خلافت کی متعلقہ آئینی دفعات عربی، اردو اور انگریزی زبان میں منسلک کی گئی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت خلافت جمہوری طرز حکمرانی کا خاتمہ کرے گی جس کے نتیجے میں بلوچستان کی یہ صورتحال ہوئی ہے۔ خلافت کوئی پولیس سٹیٹ نہیں ہوتی جو طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں پر حکمرانی کرے اور انھیں ظلم و ستم، اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے۔ ریاست کے شہریوں کے اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے متعین کردہ حقوق ہیں۔ خلافت بلا امتیاز نسل یا مسلک کے اپنے شہریوں کی وفاداری اس لیے حاصل کرپاتی ہے کیونکہ جو چیز لوگوں کو سب سے زیادہ عزیز ہے خلافت اس کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے یعنی اسلام اور خلافت جو کچھ نافذ کرتی ہے اس کا ثبوت قرآن و سنت سے ثابت کرتی ہے جو اس کے شہریوں کو مزید مطمئن کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ خلافت کا نظام وحدت پر مبنی اسلام کا نظام ہے جو اپنے تمام شہریوں پر صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے چاہے ان کا تعلق اکثریتی گروہ سے ہو یا اقلیتی گروہ سے۔ اسلام مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو محبت اور رحم دلی کے ایسے جذبے میں جوڑ دیتا ہے کہ انھیں ایک امت میں تبدیل کر دیتا ہے جیسا کہ اس سے قبل خلافت کے دور میں ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ امن اور حقوق کے تحفظ کی وجہ سے خلافت کے غیر مسلم شہری بھی اس کے زبردست وفادار ہوتے ہیں۔

اسلام بلوچستان اور پاکستان میں استعماری مداخلت کا خاتمہ کر دے گا جو فساد اور انتشار کی بنیاد ہے۔ غیر ملکی مداخلت کے مسئلے کو خلافت فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام امریکی قونصلیٹس، سفارت خانوں کو بند اور اس کے تمام اہلکاروں کو ملک بدر کر دے گی۔ خلافت تمام غیر ملکی حربی طاقتوں کی اہلکاروں سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر دے گی تاکہ ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ ہو جائے۔

نوٹ: اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔ بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی


میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان

 

Read more...

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بدلنے کے لیے پالیسی ربیع الاول 1434،بمطابق جنوری 2013

 

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" بلوچستان کی پر تشدد بے چینی پر جاری کی ہے جس میں سینکڑوں مسلمان مارے جاچکے ہیں۔

 

ا)مقدمہ:بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ اور پاکستان کا ایسا تاج ہیں جن کا خیال نہیں رکھا گیا

بلوچستان اور اس کے لوگ امت مسلمہ کا تاج ہیں۔اس کے لوگوں نے اس طرح اسلام قبول کیا کہ پورا صوبہ خلافت راشدہ کا حصہ بن گیا۔اس کے لوگ اسلام پر بہت مضبوطی سے قائم اور اس سے مخلص ہیں۔انھوں نے برطانوی استعمار کے حملے کی زبردست مزاحمت کی تھی۔یہ عزت دار اور شاندارلوگ ہیں جو آج بھی اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین پاکستان کے کل رقبے کا چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کی آبادی تقریباًسات فیصد ہے۔یہ افغانستان کی سرحد پر واقع ہے جس کی وجہ سے افغانستان،وسطی ایشیأ اور اس سے بھی آگے تک کے علاقوں میں استحکام کے لیے اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔بلوچستان میں گوادار کی بندر گاہ ہے جس کی وجہ سے ہماری بحری قوت اور استعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان میں اس قدر گیس موجود ہے کہ وہ پاکستان کی ضرورت کا ایک تہائی گیس فراہم کرتا ہے۔سیندک کی کانوں سے یومیہ پندرہ ہزار ٹن تانبہ کچی دھات حاصل ہوتی ہے اور اگر ریکوڈک کی کانوں کو بھی بہتر طریقے سے سنبھالا جائے تو پاکستان دنیا کا صف اول کا تانبے کی پیداوار دینے والاملک بن جائے ۔اسی طرح دنیا کے صف اول کا سونے کی پیداوار دینے والا ملک بھی بن جائے کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 21ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود بلوچستان ان تمام چیزوں سے محروم رہا ہے جس کو اسلام نے بنیادی ضرورت قرار دیا ہے یعنی خوراک،لباس اور رہائش۔بلوچستان ان چیزوں سے بھی محروم رہا ہے جن کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے سڑکوں ،صحت اور تعلیم کی سہولت۔ان تمام باتوں سے بڑھ کر بلوچستان کے باشندے بہت پریشانیوں کا شکار رہے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک،نسل یا زبان سے ہو۔انھیں تسلسل سے قتل کیا جارہا ہے۔اس لاپرواہی کا سلسلہ برطانوی راج کے حملے کے وقت سے جاری ہے۔ برطانیہ نے صرف اپنے اقتدار کے مرکز میں ترقیاتی کام کیے لیکن باقی پورے صوبے کو نظر انداز کردیا تا کہ وہ محروم،مفلوق الحال لوگوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پرقابو میں رکھ سکے۔

 

ب)سیاسی ا ہمیت: بلوچستان کی بدحالی کی وجہ استعماری طاقتوں کا منصوبہ ہے

امریکہ کا بلوچستان کے لیے منصوبہ بالکل وہی ہے جو برطانیہ کا تھا یعنی طاقت کے ذریعے ریاست کی رٹ کو قائم کرنا،وسائل کو لوٹنا اور مقامی آبادی کو محروم اور بد حال رکھنا۔امریکہ اپنے اس منصوبے کو پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غداروں کے ذریعے کئی دہائیوں سے نافذ کررہا ہے۔

ب1۔امریکہ پاکستان میں جمہوری نظام کی حمائت کرتا ہے جبکہ یہ نظام ریاست میں موجود چھوٹے گروہوں سے لاپرواہی برتتا ہے۔جمہوریت کا تصور ہی اکثریت کی بات کرتا ہے لہذا چھوٹے گروہ چاہے وہ زبان کی بنیاد پر ہوں یا رنگ،نسل اور مذہب،ان سے متعلق لاپرواہی ہی برتی جاتی ہے۔جمہوریت اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ چھوٹے گروہ قومیت اور فرقے کی بنیاد پر اکٹھے ہوںتا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں ۔اور پھر امریکہ استعمار کی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' کی پالیسی کے تحت قوم پرستی اور فرقہ واریت کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کر کے ہوا دیتا ہے ۔

ب2۔امریکہ کے بلوچستان میں معاشی مفادات بھی ہیں۔مشرف کی حکومت کے دوران امریکی صدر نے اس امریکی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیاں بلوچستان کے وسیع خزانوں کو نکالیں۔اور ان کمپنیوں نے کیانی زرداری کے دور میں اپنی سرگرمیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔

ب3۔امریکہ کے بلوچستان اور ہمسائیہ افغانستان میںسٹریٹیجک مفادات ہیں۔امریکہ ہر صورت افغانستان میں 2015کے بعد بھی اپنی فوجوں کی موجودگی کا خواہش مند ہے اگرچہ وہ اس وقت اس کے برخلاف بات کہتا ہے۔امریکہ نے بلوچستان کے دارلحکومت ،کوئٹہ،سے افغانستان کے لیے کٹھ پتلی صدر،کرزئی کو ،ملازمت کے لیے چنا تھا ۔ اس نے چمن کی سرحد پر امریکی میرینز کو بٹھایا ہوا ہے۔اس کی اس خطے میں انٹیلی جنس موجود ہے اور اس کی افواج نے بلوچستان میں موجود فوجی اڈوں کو اپنی ائر فورس اور ڈرونز کے لیے استعمال کیا ہے۔اس کا ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک بھی اس خطے میں موجود ہے جوکیانی اور زرداری حکومت کی اعانت سے اس خطے میں قاتلانہ حملوں اور بم دھماکوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ب4۔بلوچستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کو افواج پاکستان کی مدد و اعانت درکار ہے۔اس نے صوبے میں فتنے کا ماحول پیدا کیا ہے تا کہ افواج کو مجبوراً اس علاقے میں جانا پڑے۔نتیجتاً، ہماری افواج وہاں پھنس جائیں اور ہمارے لوگ اس فتنے کی آگ میں جلتے رہیں تا کہ امریکہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے مفادات کی تکمیل کرسکے۔

 

د)قانونی ممانعت: بلوچستان کے تحفظ اور خوشحالی سے متعلق

د1۔اسلام جمہوری طرز حکمرانی کا خاتمہ کرے گا جس کے نتیجے میں بلوچستان کی یہ صورتحال ہوئی ہے۔خلافت کوئی پولیس سٹیٹ نہیں ہوتی جو طاقت کی بنیاد پر اپنے شہریوں پر حکمرانی کرے اور انھیںظلم و ستم،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنائے۔ ریاست کے شہریوں کے اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے متعین کردہ حقوق ہیں۔ خلافت بلا امتیاز نسل یا مسلک کے اپنے شہریوں کی وفاداری اس لیے  حاصل کرپاتی ہے کیونکہ جو چیز لوگوں کو سب سے زیادہ عزیز ہے خلافت اس کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے یعنی اسلام اور خلافت جو کچھ نافذ کرتی ہے اس کا ثبوت قرآن و سنت سے ثابت کرتی ہے جو اس کے شہریوں کو مزید مطمئن کردیتا ہے۔اس کے علاوہ خلافت کا نظام وحدت پر مبنی اسلام کا نظام ہے جو اپنے تمام شہریوں پر صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے چاہے ان کا تعلق اکثریتی گروہ سے ہو یا اقلیتی گروہ سے۔ اسلام مختلف رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو محبت اور رحم دلی کے ایسے جذبے میں جوڑ دیتا ہے کہ انھیں ایک امت میں تبدیل کردیتا ہے جیسا کہ اس سے قبل خلافت کے دور میں ہوچکا ہے۔یہاں تک کہ امن اور حقوق کے تحفظ کی وجہ سے خلافت کے غیر مسلم شہری بھی اس کے زبردست وفادار ہوتے ہیں ۔

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 6میں اعلان کیا ہے کہ''ریاست کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکومتی معاملات عدالتی فیصلوں ، لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال اور دیگر امور میں امتیازی سلوک کرے ،بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ تمام افراد کو رنگ نسل اور دین سے قطع نظر ایک ہی نظر سے دیکھے'' ۔اور دستور کی دفعہ 13میں لکھا ہے کہ ''بر ی الذمہ ہونا اصل ہے عدالتی حکم کے بغیر کسی شخص کو سزا نہیں دی جا سکتی ، کسی بھی شخص پر کسی بھی قسم کا تشدد جا ئز نہیں ، جو اس کا ارتکا ب کر ے گا اس کو سزادی جا ئے گی''۔

د2۔  خلافت وفاقی نظام نہیں ہے بلکہ یہ وحدت پر مبنی نظام ہے۔ لہذا کسی ایک خطے میں سرمایہ کاری صرف اس خطے کی آبادی،غربت اوررقبے کو دیکھتے ہوئے نہیں کی جاتی بلکہ اس کا فیصلہ لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے جس میں خوراک،لباس،رہائش،تعلیم،صحت،ذرائع آمدورفت اورمواصلات شامل ہیں۔عوامی اثاثے جیسے گیس،تانبہ اور سونا وہ ذخائر ہیں جن کو تمام شہریوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ان اثاثوں کو عوام سے چھین کر ملکی اورغیر ملکی نجی کمپنیوں کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے نہیں دیا جاتا۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 16میں اعلان کیا ہے کہ''نظا م حکو مت وحدت کا نظا م ہے اتحا د کا نہیں''۔نے اپنی کتاب ''ریاست خلافت کے انتظامی امور'' میں لکھا ہے کہ ''تمام انتظامی یونٹس(ولایہ) کے محاصل اور ان کے بجٹ بھی ایک جیسے ہوں گے۔ اگر ایک ولایہ (صوبہ) کے محاصل سے حاصل ہونے والی رقم اس کے اخراجات سے دوگنا بھی ہوںتب بھی اس ولایہ میں خرچ اس کی ضرورت کے مطابق ہو گا نہ کہ اس کے محاصل کے مطابق۔ اسی طرح کسی ولایہ (صوبہ)کی اخراجات اس کے محاصل سے سے زیادہ ہوں تو اس کے اخراجات کے مطابق خرچ کرنے کے لیے عمومی بجٹ سے رقم لے کر خرچ کی جائے گی''۔

د3۔اسلام بلوچستان میں استعماری مداخلت کا خاتمہ کردے گا جو فساد اور انتشار کی بنیاد ہے۔بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے مسئلے کو خلافت میں فیصلہ کن طریقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام امریکی قونصلیٹس اورسفارت خانوں کو بند اور اس کے تمام اہلکاروں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔خلافت میں تمام غیر ملکی حربی طاقتوں کے اہلکاروں سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر دیا جائے گا تاکہ ان کے اثرو رسوخ کا خاتمہ ہوجائے۔

 

حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ189کی شق 3میں اعلان کیا ہے کہ''وہ ریاستیں جن کے ساتھ ہمارے کوئی معاملات نہیں یا ستعماری ممالک جیسے برطانیہ ،امریکا، اور فرانس یا وہ ممالک جو ہمارے علاقوں پر نظریںجمائے ہوئے ہیں،جیسے روس ۔  یہ ر یاستیں  ہمارے ساتھ حکماً متحارب (جنگی حالت میں)ہیں ۔  ان کے حوالے سے ہر طرح کی احتیاط برتی جائے گی۔  ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات استوار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔  ان ریاستوں کے شہری ہمارے علاقوں میں پاسپورٹ اور خصوصی اجازت اور ہر شخص کے لیے الگ ویزے کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں ماسوائے کہ ان سے عملاً جنگ شروع ہو جائے''۔

 

نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا ۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 189,16,13,6سے رجوع کریں۔

 

ج)پالیسی :بلوچستان کو اس کا اصل مقام دلانا

ج1۔  اس خطے میں بسنے والے مسلمانوں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے اسلام کو نافذ کیا جائے گا جو انھیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ غیر مسلموں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لیے انھیں وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو اسلام نے ان کے لیے لازمی قرار دیے ہیں۔

ج2۔ریاست کو لاحق اصل اندرونی خطرے یعنی امریکہ کی موجودگی کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔

ج3۔ پاکستان کے وسیع قدرتی وسائل کی نجکاری نہیں کی جائے گی بلکہ انھیں عوامی اثاثجات قرار دے کر بہت بڑی رقم حاصل ہو گی جس کو تمام خطوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

 

نوٹ: اس پالیسی دستاویز کی پریس رلیز کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے بلوچستان کی پر تشدد بے چینی کے خاتمے کے لیے پالیسی دستاویز جاری کر دی

خلافت بلوچستان کو امن، خوشحالی اور عزت دار مقام فراہم کرے گی

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک