المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 9 من جمادى الأولى 1439هـ | شمارہ نمبر: 1439 AH / 008 |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 26 جنوری 2018 م |
- پریس ریلیز
- شام پر امریکی پالیسی کے حوالے سے ٹیلرسن کی تقریر بظاہر میٹھی لیکن چالاک لومڑی کی طرح دھوکے پرمبنی ہے
امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن نے 17 جنوری 2018 کو کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈیونیورسٹی میں ایک تقریر کی جس میں شام کے حوالے سے امریکی پالیسی بیان کی گئی۔ ٹیلرسن کی تقریرمیں شام کاضمنی طور پر ذکر نہیں تھا بلکہ تقریر کا موضوع ہی شام تھا۔ ٹیلرسن نے شام کے واقعات بیان کیے جس میں اس نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور جھوٹ کی آمیزش کی تا کہ یہ ظاہر ہو جیسے شام میں بہنے والے خون کی ذمہ داری امریکہ پر عائد نہیں ہوتی اور یہ کہ وہ شام کے لوگوں کا دوست ہے۔ اِس کے بعد اُس نے شام کے حوالے سے امریکی پالیسی کے اہداف بیان کیے:1۔ امریکہ کے مرکزی دشمن داعش سمیت القائدہ سے لڑنا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ان سے درپیش خطرات کی روک تھام ۔ 2۔ امریکہ شام میں ایران کے اثرورسوخ کو" کمزور" کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا اور اُسے اِس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اپنا اثرورسوخ ایران سے بحیرہ روم تک بڑھا لے۔ 3۔ ان وجوہات کی وجہ سے امریکہ اپنی افواج کا شمال مشرقی شام سے انخلاء نہیں کرے گا بلکہ کُرد علاقوں میں فوجی و سفارتی موجودگی میں اضافہ کرے گا تا کہ صورتحال کے استحکام کو یقینی بنایا جائے اور جب تک سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کی بنیاد پر سیاسی حل لاگو نہیں ہوجاتا۔ 4۔ امریکہ شام کے کسی بھی علاقے میں، جو الاسد حکومت کے کنٹرول میں ہے ، تعمیر نو کی کسی بھی بین الاقوامی کوشش کی اجازت نہیں دے گا۔ 5۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام صاف و شفاف انتخابات کرائے گا جس میں بیرون ملک رہنے والے شامی اور وہ مہاجرین بھی حصہ لیں گے جنہیں اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا تھا، اور اس طرح اقتدار کی کرسی سے اسد اور اس کے خاندان کی رخصتی کا آغاز ہوجائے گا۔
یہ بات واضح ہے کہ فوجی و سفارتی موجودگی کو بڑھانے کے امریکی فیصلے کا مقصد ایک نئی حقیقت تخلیق کرنا ہے جو امریکہ کو اس قابل بنائے کہ وہ شام میں ہونے والے ایک ایک واقع کو کنڑول کرنے کے قابل ہو چاہے اس کا تعلق عسکریت سے ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر شام میں قیام کو طول دینا ہو۔ ٹیلرسن ، جو کہ ایک جھوٹا آدمی ہے، نے یہ دعوی کیا کہ شام میں عراق کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جب امریکہ نے اپنی فوجیں 2011 میں واپس بلائیں تھیں؛ اس انخلاء نے داعش کے ظہور کے لیے راہ ہموار کی تھی جس کی وجہ سے بعد میں (اس کے دعوی کے مطابق)کئی سانحات پیش آئے ۔ یقیناً ٹیلرسن نے اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ کس طرح عراقی آرمی کی قیادت نے تمام فوجی و مالیاتی وسائل کے ساتھ 2014 کے موسم گرما میں شمالی عراق داعش کے حوالے کردیا تھا۔
ٹیلرسن کا بیان اور یہ فیصلہ کہ 30 ہزار مضبوط کردسرحدی فورس بنائی جائے گی، اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ کے کئی سازشی اہداف ہیں اور وہ ایک کے بعدایک بحران پیدا کرتا ہے تا کہ اپنے اہداف اور مفادات کے حصول کے لیے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے ۔ افغانستان میں امریکی افواج کی مسلسل موجودگی ،جس پر اس نے 2001 میں قبضہ کیا تھا، اس بات کی بہترین مثال ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔ ماضی میں القائدہ اور آج داعش کے خلاف دہشت گردی کی جنگ ایک جھوٹ ہے اور امریکی اغراض و مقاصد کو چھپانے کے لیے ہے۔ ٹیلرسن نے اپنی تقریر میں کہا کہ، " امریکہ شام میں فوجی موجودگی کو برقرار رکھے گا جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ داعش دوبارہ واپس نہ آسکے"۔ اس نے مزید کہا، "شام میں ہمارے فوجی مشن کی موجودگی کا دارومدار حالات پر ہے"، یعنی اس فوج کے انخلاء کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے یا یہ کہ کوئی مخصوص پیمانہ نہیں ہے کہ جس کے تحت مشن کی کامیابی کا جائزہ لیا جاسکے۔ جب سینیٹر ٹام اوڈل نے دفتر خارجہ کے اہلکار ڈیوڈ اسٹار فیلڈ سے پوچھا، "کیسے یہ سب کچھ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں تبدیل نہیں ہوگا؟" تو اسٹار فیلڈ نے اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔
یقیناً لومڑ ٹیلرسن امریکی زہر کو شہد کی طرح میٹھی میٹھی باتیں کر کے چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس نے اپنی تقریر کو خوبصورت بنانے کی کوشش کی اور مگر مچھ کے آنسو بہائے جب اس نے شہریوں کے حوالے سے امریکہ کی پریشانی کا ذکر کیا جبکہ وہ امریکی ایجنٹ دمشق کے قصائی بشار کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ٹیلرسن نے یہ دعوی کیا کہ امریکہ کبھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے جائیں اور جو ایسا کریں گے امریکہ ان کا احتساب کرے گا۔۔۔۔ ٹیلرسن نے بیرل بمبوں اور میزائل حملوں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں اور اسپتالوں، مساجد اور گھروں کی تباہی کا ذکر نہیں کیا ، لگتا ہے کہ ٹیلرسن کی لغت میں اس قسم کی قتل و غارت "رحم دلانہ" ہے اور اسی لیے ان پراس نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ امریکہ مجرم ہے اور دمشق کے قصائی کا اقتدار ، اصل مجرم امریکہ کے کئی جرائم میں سے صرف ایک حصہ ہے، یہ بات باعث شرم ہے کہ نام نہاد فری آرمی کے کچھ انقلابی رہنما ٹرمپ کی جنت کے وعدے کے سیراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے ان سے واشنگٹن میں ملاقات سے انکار کردیا ہے اور انہیں صرف اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنا اجلاس واشنگٹن میں کرسکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کرنے والے ایک دارالحکومت سے دوسرے دارالحکومت کے چکر لگا رہے ہیں اور شا م کے مسئلے سے جڑے ممالک کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان ممالک کے مفادات کا تحفظ بشار سے زیادہ بہتر طریقے سے کریں گے۔ اور اسی دوران حزب اختلاف کے گروہ افرین میں اردوان کے اہداف کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ ان کی مکمل توجہ دمشق کے قصائی سے لڑنے پر ہونی چاہیے۔
ہرایک کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بشار اور اس کے غنڈوں کے جبر سے جان چھڑوانے کا سب سے مختصر راستہ یہ ہے کہ سب مل کر کہیں اور نہیں بلکہ صرف دمشق میں ایک فیصلہ کُن وار کریں جو اس کی حکومت کو تباہ کردے۔ اس کام کو کرنے کے لیے ایک ایسی قیادت چاہیے جو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کام کرتی ہو اور سازشیوں کی حمایت کو مسترد کرتی ہو جنہوں نے شام کے انقلاب کے خلاف سازشیں کیں ۔ ورنہ شام کے لوگوں کی مشکلات اور مصائب کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔
ڈاکٹر عثمان بخاش
ڈائریکٹر مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |