المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 27 من ربيع الاول 1439هـ | شمارہ نمبر: 1439 AH/006: |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 15 دسمبر 2017 م |
- هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
- "وہ تمہارے حقیقی دشمن ہیں، تم ان سے بچتے رہو، اللہ انہیں ہلاک کرے،
- وہ حق سے کس طرح منحرف ہوجاتے ہیں؟"(المنافقون:4)
13 دسمبر 2017 کو اسلامی علاقوں کے پچپن(55) ممالک کے رہنما استنبول میں ٹرمپ کی جانب سے القدس (یروشلم) کو یہودی وجود کا دارلحکومت قرار دینے کے اعلان کا جواب دینے کے لیے جمع ہوئے۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر وہ مسلمانوں کی امیدوں پر پورا اترے جہاں انہوں نے صرف ایک دوسرے سے بڑھ کر مذمتی اور تنقیدی تقاریروں پر اکتفا کیا ۔ یہ اس لیے کیونکہ وہ کافرمغربی استعمار کے ایجنٹس ہیں اور اسلام کے خلاف اُن کی جنگ کے آلہ کارہیں ۔وہ اُن کے حکم پر مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی دوبارہ شروع کرنے سے روکنے والے ، اُن کے مفادات کی نگہبانی کرنے والے اور ہماری سرزمین کواُن کے لئے نو آبادیات بنانے والے اور ہماری دولت کو لوٹنے میں اُن کی مدد کرنے والے ہیں۔
ان کی تقاریر کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ ان سب نے اپنے مطالبے میں اس بات سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مشرقی یوروشلم کو "مبینہ" فلسطینی ریاست کا دارلحکومت قرار دیا جائے۔
ان کے مطالبے کی بنیاد بین الاقوامی قانون ہے جسے کافر استعماری ریاستوں نے مرتب کیا تھا تاکہ وہ خلافت کو ختم کرنے کے بعد مسلمانوں کو تباہ کرنے اور اپنے استعماری مفادات کے حصول کو یقینی بنا سکیں؛ یوں استعماریوں نے مسلم ممالک کو پچپن ممالک میں تقسیم کردیا جو کفر کے قانون کا تحفظ کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے قانون کے خلاف لڑتے ہیں!
اپنے اس عمل کے ذریعے انہوں نے اپنے استعماری آقاؤں اور مالکوں سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ اگر وہ اپنی اس تنظیم کے نعرے یعنی "اسلامی تعاون" کے نام سے ہی وفادار ہوتے تو وہ یہ جان لیتے کہ اسلام مسلمان ممالک کو ایک ریاست میں یکجا کرنے کا تقاضا کرتا ہے، جس کی قیادت ایک امام کرے نہ کے کئی مختلف حکمران۔ امام مسلم نے رسول اللہﷺ سے روایت کی ہے کہ،
إِذَابُويِعَلِخَلِيفَتَيْنِ، فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا
"اگر دو خُلفاءکے ہاتھوں پر بیعت ہو جائے تو جس کے ہاتھ پر بعد میں بیعت ہوئی ہو اس کو مار ڈالو"
(اس لیے کہ اس کی خلافت پہلے خلیفہ کے ہوتے ہوئے باطل ہے)۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
سَتَكُونُهَنَاتٌ،وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَهُم جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْف كَائِنًا مَنْ كَانَ
"فتنے اور فساد قریب ہیں، پھر جو کوئی اس امت کو تقسیم کرے تو اس کو تلوار سے مارو چاہے جو کوئی بھی ہو"۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ
"اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے جب تم سب ایک شخص تلے متحدہو اور وہ تم میں تفریق اور تقسیم کرنے کی کوشش کرے تو اس کو مار ڈالو"۔
امام النووی نے 'شرح مسلم' میں فرمایا:
"حکم یہ ہے کہ اُس شخص سے لڑا جائے جو امام (خلیفہ) کے خلاف لڑے یا مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہو یا ان اعمال جیسا کوئی اور عمل کرے تو اسے روکا جائے، اور اگر وہ نہیں رکتا تو اس کے خلاف لڑا جائے اور اگر اس کے شر کو ختم کرنے کا واحد طریقہ اُس کی موت ہےتو اسے لازمی قتل کیا جائے۔ حدیث اس حکم کا ثبوت ہے کہ ایک سے زیادہ امام ہونا یا دو خلفاء ہونا منع ہے کیونکہ ایسی صورتِ حال تقسیم کی طرف لے جائے گی اور اِس سے بغاوت پیدا ہو گی اور برکتیں ختم ہو جائیں گی، یہ اجماع سے روایت ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں دو خلفاء کا تقرر کیا جائے"۔
تو اے حکمرانو اور رہنماؤ ہمیں بتاؤ کہ تم کس قانون سے رجوع کرتے ہو، اللہ کے قانون سے یا اللہ کے دشمنوں کے قانون سے؟ کیا اللہ کے قانون میں اس بات کی اجازت ہے کہ فلسطین کی سر زمین کا بیشتر حصہ یہود کو دے کر اُن کے ساتھ "امن" قائم کرلیا جائے؟ کیا اللہ کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مسلمانوں کی سرزمین درجنوں ممالک میں تقسیم ہو؟ یا یہ کہ وہ ایک اکائی کی صورت میں ان ممالک کو یکجا کرنےکو لازمی قرار دیتا ہے؟ تم اچھی طرح سے جانتے ہوکہ جب امت ایک ریاست کی صورت میں یکجا ہو جائے گی تو یہ ریاست تمام شعبوں میں دنیا کی نمبر ایک ریاست ہوگی اور دنیا کے تمام ممالک اِس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور تب امریکہ یا کوئی اور اس کے خلاف کوئی فیصلہ لینے کی ہمت نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی یہودی اکائی کا کوئی وجودباقی رہے گا۔
اے مسلمانو! مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے یوروشلم کو یہودی ریاست کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ مسلمانوں پر مسلط حکمرانوں نے عثمانی خلافت کے دارلحکومت استنبول میں جمع ہو کر مشرقی یوروشلم کو غزہ اور مغربی کنارے، جسے وہ فلسطینی ریاست کہتے ہیں، کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، یعنیانہوں نے یہ قبول کرلیا ہے کہ مغربی یوروشلم بلکہ پورا کا پورا فلسطین یہودی وجود کی ملکیت ہے۔ بلکہ مسئلے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اور اس کا یروشلم اور اس کے تمام شہر اور دیہات خراجی اسلامی زمین ہے جس کی ملکیت تا قیامت پوری امت مسلمہ کے پاس ہے۔ اس کو آزاد کروانا اور یہودی وجود کا خاتمہ کرنا ایک لازمی امرہے اور ایسا صرف مسلم افواج ہی کرسکتی ہیں۔ سیاسی مذاکرات، طویل یا مختصر مدت کی جنگ بندیاں اور فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمتی تحریک ،چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، فلسطین کو آزاد نہیں کراسکتیں۔ فلسطین کی آزادی صرف اس فوج کے ذریعے سے ہو گی جو مکمل طور پر مسلح ہو ، اسلام سے جڑی ہو، جس کے پاس ایمان ہو، منصوبہ بندی ہو اوروہ بھاری ہتھیاروں، ٹینکوں، توپوں، جنگی طیاروں اور میزائلوں سے مسلح ہو۔
اے مسلمانو! یہ حکمران اس امت کے دشمنوں کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور امت کو قائل کرتے ہیں کہ وہ یہودی وجود کو تسلیم کرلے ، اس کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے اور اس کے بدلے میں مغربی کنارے، غزیٰ کی پٹی اور مشرقی یوروشلم پر مشتمل فلسطینیوں کی کمزور ریاست کو قبول کرلے۔ آپ کے لیے یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ ان حکمرانوں میں سے کچھ یہودی وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کا جھنڈا قائرہ، انقرہ اور عمان میں کھلم کھلا جبکہ باقی مسلمان ممالک میں خفیہ طور پر لہراتا ہے۔
اے مسلمانو! یہ حکمران شام، یمن، لیبیا، مصر، تیونس اور دیگر ممالک میں تمہارے خلاف جرائم کاا رتکاب کررہے ہیں۔ یہ ظلم و جبر کے زور پر حکمرانی کررہے ہیں اور یہ تمہیں تمہارے رب کے قانون کے مطابق زندگی گزارنے سے روکتے ہیں۔ ان کے جھوٹ پر بھروسہ اور یقین مت کرو، نہ ہی ان کے ظلم میں ان کی حمایت کرو اور نہ ہی انہیں سنواور نہ ہی ان کی اطاعت کرو۔
اے مسلمانو! ان حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے۔ وہ حکمران جنہوں نے کھلم کھلا یہودی وجود کو تسلیم کررکھا ہے منافق ہیں۔ وہ حکمران جو یہود کے ساتھ معمول کے تعلقات کومسترد کرتے ہیں وہ بھی منافق ہیں۔ ان سب نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور ایمان والوں کے ساتھ غداری کی اور تمہاری افواج کو اپنے اقتدار اور استعماری طاقتوں کے تحفظ اور تمہیں قتل کرنے کے لئے مختص کردیا بجائے اس کے کہ یہ افواج مقبوضہ مسلم علاقوں کو آزاد کرانے اور اسلام کو پھیلانے کے لیے اللہ کی راہ میں لڑتیں۔ ان حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد آپ سے یہ امید ہے کہ آپ ان جابر حکمرانوں کو ہٹاؤ گے اور خود پر سے ان کے تسلط کو ختم کرو گے، اور نبوت کے طریقے پر خلافت راشدہ کے قیام کی کوشش کرو گے تا کہ تم اپنی کھوئی ہوئی وحدت دوبارہ حاصل کرسکو۔
اور مسلم افواج کے کمانڈرو، کیا تم نے زمین و آسمان اور اس پوری کائنات کے رب کے سامنے حاضرہو کر اِس سوال کا جواب دینے کی تیاری کرلی ہے جب تم سے ان غدار حکمرانوں کی غداری پر خاموشی اختیار کرنے کا سبب پوچھا جائے گا، جبکہ تم نے ان کی غداری خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اوران حکمرانوں کی جانب سے اللہ اور رسول ﷺ کے دشمنوں کی اطاعت کرنے کا خود مشاہدہ کیا ہے؟
جہاں تک علماء و مشائخ کا تعلق ہے تو ہم انہیں یہ یاددہانی کراتے ہیں کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں اور امت کی رہنمائی کی بھاری ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہےکہ وہ ان جابر حکمرانوں کا سامنا کریں اور حق و سچ کی بات کھل کرکریں اور اللہ کے قانون کو مکمل نافذ کرنے مطالبہ کریں۔ اور اولین کام جہاد کو دوبارہ زندہ کرناہے، صرف مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کوپھیلانےکے لئے۔
اے اللہ استخلاف (خلافت کی واپسی) کا وعدہ پورا فرمائیے، طاقت اور بالادستی کے دور کے واپسی کا وعدہ، اور ہمارے لئے اُن اہل قوت کو تیار فرما جو ہمیں نصرۃ دیں اور ہمیں اس قابل کر کہ ہمبیت المقدس کو آزادکروایں اور یہود کی نجاست سے پاک کریں۔
ڈاکٹر عثمان بخاش
ڈائریکٹر، مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |