الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تعاون

 

 ناکام اورکرپٹ  لبرل مغربی اقدار کو ہمارے مسائل کے حل کے لیے کبھی درآمدنہیں  کرنا چاہیے

 

پاکستان کے حکمران جدیدیت کے نام پر مغربی اقدار کو ہمارے معاشرے میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کا نشانہ خاص طور پر ہمارے نوجوان ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے،ہمارے نوجوانوں اور ہمارے مرد و خواتین کے لیے ان اقدار کا مقصد ان میں شخصی آزادی اور انفرادیت(خود غرضی) کی سوچ کو پروان چڑھانا ہوتا ہے تاکہ وہ ان تصورات کی بنیاد پر مختلف اعمال سرانجام دیں۔ یہ تصورات اپنی بنیادسے مغربی اور ہمارے لیے بالکل اجنبی ہیں۔یہ تصورات مغرب کے مذہب کے حوالے سے تاریخی تجربے کا نتیجہ اورعیسائی چرچ کے ظلم وستم کا ردعمل ہے۔سرمایہ داریت اپنے قوانین چار آزادیوں کی بنیاد پر بناتا ہے جس میں شخصی آزادی بھی شامل ہے۔یہ تصور مرد و عورت کے تعلقات اور ان کے ذاتی کردار کے حوالے سے بننے والے قوانین پر اثرانداز ہوتا ہے۔  سرمایہ داریت میں مرد اور عورت کے تعلقات ان کے جسمانی تعلق تک محدود ہو کررہ گئے ہیں ۔اس کے علاوہ مرد اور عورت کے تعلقات پر انفرادیت (خود غرضی) کا تصور غالب ہوگیا ہے۔تعلق کی یہ بنیاد اُس سے بالکل مختلف ہے جس کی اسلام مرد و عورت کے تعلق کے حوالے سے ترویج کرتا ہے یعنی عزت،تعظیم اور باہمی تعاون۔

 

حکمرانوں نے مغربی اقدار کو مسلم معاشروں میں رائج کرنے کی جو مہم شروع کررکھی ہے وہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہے جو اسلامی اقدار اور مرد و عورت کے درمیان خوشگوار تعلقات کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ مغربی نقطہ نظر کے مطابق مرد و عورت کی زندگی کا سب سے اہم مقصد جنسی تسکین سے لطف اندوز ہونا ہے ۔اس سلسلے کو مرد و عورت کے آزادانہ میل میلاپ اور گھٹیہ ٹی وی پروگراموں،فلموں، اشتہارات ،ماڈلنگ،فیشن میگزینز کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔حکمران ہمارے معاشروں میں مرد و عورت کے آزادانہ میل ملاپ کی اجازت دے کر مرد وعورت کے درمیان موجود قدرتی کشش کو کئی گنا بڑھا کر ، ز نا کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔اس سلسلے کو اسکولوں اور کالجوں میں کافی شاپ کلچر،میلوں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ شخصی آزادی نے مغربی معاشرے میں مرد اور عورت کے درمیان باہمی تعاون کے جذبے کو تقریباً ختم ہی کردیا ہے اور انفرادیت یعنی خود غرضی بالاتر ہوگئی ہے اس طرح دو مخالف جنسوں کے مابین تعاون کی جگہ جنگ کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔اس غلط نظریہ نے معاشرے میں عدم استحکام اور افسردگی پیدا کی ہے جس کا شکار مرد،عورت اور بچے سب ہی ہورہے ہیں اور ماں ،باپ،بچوں اوررشتہ داروں پرمشتمل روایتی خاندانی اکائی تباہی کی طرف گامزن ہے۔

 

ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لیے خاندان میں مرد اور عورت کے ایک دوسرے کے حوالے سے کردار سے متعلق صحیح نظریے کا وجود انتہائی ضروری ہے۔اس تعلق کے لیے درکار قوانین نہ تو مغرب سے درآمد کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے قوانین موجودہ مسلم معاشروں میں موجود غیر اسلامی روایات سے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے حکمران دوسرے دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی مغرب کی محض نقالی ہی کرتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ مغربی معاشرہ عورتوں ،بچوں اور خاندان کے تحفظ اور مرد و عورت کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی تعلق کو قائم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پاکستان میں ان ناکام تصورات کے نفاذ نے مسلمانوں کے مسائل ،جن کا مسلمان اسلام کو چھوڑ کر غلط تہذیبی روایت کو اپنانے کی بنا پرشکار ہیں ،مزید پیچیدہ کردیے ہیں۔ بچوں اور والدین کے درمیان،بیویوں اور شوہروں کے درمیان اور بیویوں اور سسرالیوں کے درمیان موجود روایتی مسائل مزید شدت اختیار کرگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت شخصی آزادی کے تصور اور انفرادیت (خود غرضی) کے تصورات سے بھی متاثر ہوگئے ہیں جس نے ان کے درمیان مسائل کو اور بڑھادیا ہے۔ ان تمام باتوں کے نتائج شرح طلاق میں اضافے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ اسلام آباد کی مصالحتی کونسل کے رجسٹرز کے مطابق حالیہ چند سال میں طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اوربچوں کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ میڈیا انفرادیت(خودغرضی) کی ترویج کرتا ہے اور روایتی اقدار جیسے بڑوں کا ادب کرنا یا اپنے سے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے جیسی باتوں کی ترویج نہیں کرتا ۔

 

معاشرے کرپٹ اقدار کی وجہ سےدرہم برہم ہوگئے

 

انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت کی فطرت میں مماثلت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دونوں میں کچھ ایسی خصوصیات پیدا کیں ہیں جو انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں (أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْر)''کیا وہی نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ؟وہ باریک بین اور باخبر ہے''(الملک:14)۔ لہٰذا ایسے قوانین کا ہونا لازمی ہے جو ان معاملات کو دیکھے جو ان دونوں کے درمیان مشترک ہیں اورایسے قوانین بھی ہونے چاہیے جو ان کے غیر مشترک معاملات کو حل کرسکیں۔ سرمایہ داریت اس کھلی حقیقت کواہم تسلیم نہیں کرتااور اسی لیے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی نہیں کرتا۔

 

مغرب میں عورت کے معاشرے میں کردار سے متعلق تصور اس کے عورت ہونے کی بنیاد پرنہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی ظاہری خوبصورتی کی مالک ہے اور معاشرے کی اقتصادی ترقی میں کتنا حصہ ڈالتی ہے۔ عورت فطری طور پر ایک ماں اور بیوی ہے اور اس کے دونوں کردار معاشرے اور خاندان کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ ان دونوں کرداروں کی ادائیگی کے لیے ذہنی اور جسمانی استعداد ضروری ہے اور عورت کے اس کردار کی ادائیگی کے لیے درکار صلاحیت کو کم تریا فضول نہیں سمجھنا چاہیے۔ عورت کے اس کردار کو کم تر سمجھنا تباہی کا باعث ہے جیسا کہ آج کا مغربی معاشرہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بچوں میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ، بچوں کے ذہنی اور جسمانی صحت کے مسائل ، تعلیم میں ان بچوں کا پیچھے رہ جانا جن کے مائیں پورا دن کام کرتیں ہیں۔ پاکستان میں اب بھی ایک عورت جب ایک ماں اور بیوی کا کردار خوبی سے نبھاتی ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ چیز ہمارے معاشرے میں بہت مضبوط ہے ۔ لیکن اب اس رویے میں تبدیلی محسوس کی جارہی ہے کیونکہ اب عورت کی اہمیت کو صرف اس کی ظاہری خوبصورتی، تعلیم ،نوکری اور اس کے معاشی مستقبل سے جانچا جا نا شروع ہوچکا ہے اور عورت ہونے کے ناطے اس کے بنیادی کردار کو اہمیت نہیں دی جارہی۔ 

 

شخصی آزادی کی بنیاد پر معاشرے میں مرد اور عورت کے کردار کا تعین نہیں ہوسکتا کیونکہ مرد اور عورت کی خواہشات اور مرضی ان کے درمیان سچ اور حق کی بنیاد پر کسی تعاون کے معاہدے پر نہیں پہنچاسکتی بلکہ اس کے نتیجے میں اختلافات، ظلم اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ ان کرپٹ اور غیر اخلاقی مغربی افکار کی یلغار کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے مسائل، جو کرپٹ مقامی روایت کی وجہ سے ہیں اورجن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس وقت مسائل پیدا ہوتے ہیں جب مرد اور عورت کی خواہشات اور مرضی کواسمبلیوںمیں قانون ، روایات اور اقدار کی بنیاد بنادیا جائے۔اس بنیاد کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حاکمیت اعلی سے بدلنے کی ضرورت ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،

 


وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ

''اور یہ کہ (آپﷺ) ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکامات)کے مطابق فیصلہ کریں۔اور ان سے محتاط رہیں کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بعض (احکامات) کے بارے میں آپ ﷺ کو  فتنے میں نہ ڈال دیں۔''(المائدہ:49)۔

 

مرد اور عورت کے کردار کو اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر پروان چڑھانا

 

 مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی بنیادان کی ایک دوسرے کے لیے فطری کشش نہیں ہوگی بلکہ ان کا یہ نظریہ ہو گا کہ وہ دونوں انسان ہیں ۔اسلام عورت کو عزت و احترام کا مقام دیتا ہے جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 112میں اس کا اعلان کیا ہے کہ ''عورت کا بنیادی کردار ایک ماں اور گھر کی دیکھ بھال کرنے والی کا ہے اور وہ ایسی عزت و آبروہے جس کی حفاظت فرض ہے''  ۔اس کے علاوہ دستور کی دفعہ119 میں حزب نے یہ اعلان کیا ہے کہ ''مرد اور عورت دونوں کو ایسے کسی بھی کام سے روکا جائے گاجو اخلاقی لحاظ سے خطرناک ہویا معاشرے میں فساد کا باعث ہو۔'' 

 

 اسلام میں مرد اور عورت کی ایک دوسرے میں موجود فطری کشش اور ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت کو نکاح کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔نکاح لوگوں کو زنا کے گناہ اور جرم سے محفوظ کردیتا ہے اور اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ جوان ہوتے ہی نکاح کرلیا جائے۔ زنا معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا ہے اور مرد،عورت اور بچوں پر ظلم کا باعث ہے۔ زنا کے ذریعے قائم تعلق مرد اور عورت دونوں پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں کرتا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اپنی ولدیت بھی نہیں جانتے۔ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 120میں اعلان کیا ہے کہ''ازدواجی زندگی اطمینان کی زندگی ہو تی ہے،میاں بیوی کا رہن سہن(میل جول) ساتھیوں (دوستوں) کا ہوتا ہے۔مرد کی بالادستی دیکھ بھا ل کے لحاظ سے ہو تی ہے حکم چلانے کے لیے نہیں ۔عورت پر اطاعت فرض ہے جبکہ مرد پر اس کے لیے رواج(عرف)کے مطابق نفقہ''۔اسلام میں میاں اور بیوی ایک قانونی معاہدے کے تحت جڑتے ہیں جس میں دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق اور فرائض ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد ان کی خواہشات اور مرضی نہیں بلکہ اسلام ہوتا ہے۔ مرد اور عورت کا تقوی ان قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو عدالتی نظام اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتا ہے۔ میاں اور بیوی ایک دوسرے کا خیال اور عزت رکھ کر اس تعلق کو پروان چڑھاتے ہیں اور اس کومزید مضبوط ان مندوبات کو اختیار کر کے کرتے ہیں جیسے ایک دوسرے کے لیے خوبصورتی کو اختیار کریں اور نرمی کا سلوک روا رکھیں۔

 

           مرد اور عورت کے کردار کا تعین ان کی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے متعین کیا ہے جیسا کہ کسی بھی ادارے کے استحکام اور اس کے روزمرہ کے امور کو بغیر کسی روکاٹ کے چلانے کے لیے اس ادارے میں موجود لوگوں کے کردار کا تعین ضروری ہے لہٰذا خاندان کے ادارے کو چلانے کے لیے بھی میاں بیوی کے کردار کا تعین انتہائی ضروری ہے۔ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ121 میں اعلان کیا ہے کہ''گھر کے کا م کاج میں میاں بیوی مکمل تعاون کریں گے۔گھر سے با ہر کے تمام کاموں کو انجام دینا شوہر کی ذمہ داری ہے جبکہ گھر کے اندر کے تمام کام حسب استطاعت بیوی کے ذمہ ہیں۔جو گھریلو کا م وہ نہیں کر سکتی اس کے لیے خادم مہیا کر نا شوہر کی ذمہ داری ہے۔''یہ کردار اسلام نے متعین کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو مندوب قرار دیا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لہٰذا  مرد کے لیے ا س بات میں اجر ہے اگر اس کی بیوی بیمار ہے یا کسی اور کام میں مصروف ہے تو وہ گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں اپنی بیوی کی مدد کرے۔ اسی طرح سے عورت کے لیے بھی اجر ہے اگر اس کا شوہر بیمار ہے یا کسی اور کام میں مصروف ہے تووہ  سودا سلف کی خریداری کے لیے جائے۔ لیکن باہمی تعاون اور عزت اس وقت قائم ہوتی ہے جب مرد اور عورت دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور جب کوئی اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کرے تو اس کی تعریف کریں۔ 

 

اسلامی ریاست عورت کو نہ توصرف گھر تک محدود کرتی ہے اور نہ ہی ماں اور بیوی کے کردار کے علاوہ کوئی اور کردارادا کرنے سے روکتی ہے۔

 

عورت بھی معاشرے کی ایک مکمل رکن ہوتی ہے اور اس کے معاملات میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کو تعلیم حاصل کرنے،نوکری کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں۔ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 114میں اعلان کیا ہے کہ''عورت کو بھی وہی حقوق دیے گئے ہیں جو مردوں کو دیے گئے ہیں اوراس کے بھی وہی فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو مردوں کی ہیں تاہم اسلام نے کچھ احکامات خصوصی طور پر عورتوں کے ساتھ مخصوص کیے ہیں یاشرعی دلائل کے مطابق مردوں کے ساتھ خاص کیے ہیں۔عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تجارت کرے،زراعت یا صنعت سے وابستہ ہو جائے،معاہدات اور معاملات کو نبھائے ، ہر قسم کی املاک کی مالکن بنے،خود یا کسی کے ذریعے اپنے اموال کو بڑھا ئے اورخود براہ راست زندگی کے تمام امور کو انجام دے سکے۔''اور دفعہ 115میں لکھا ہے کہ ''عورت کو ریاست میں ملازم مقرر کرنا جائز ہے،قاضی مظالم کے علاوہ قضاء کے دوسرے مناصب پر فائز ہو سکتی ہے۔وہ مجلس امت کے اراکین کو منتخب کر سکتی ہے اورخود بھی اس کا رکن بن سکتی ہے ۔ خلیفہ کے انتخابات میں شریک ہو سکتی ہے اور خلیفہ کی بیعت کر سکتی ہے۔''  اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین امت کے امور کی نگہبانی میں انتہائی متحرک تھیں اور ان کے کردار پر بندش اس وقت عائد کی گئی جب خلافت کا خاتمہ ہوا اور سیکولر قومی ریاستوں کو قائم کیا گیا جن پر ظالم لوگ حکمران بنا دیے گئے چاہے وہ جمہوری تھے یا آمر یا بادشاہ۔ 

 

ہجری تاریخ :19 من شوال 1443هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 20 مئی 2022م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک