الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پاکستان کو ایک زرعی طاقت بننے کی راہ میں  رکاوٹ ہیں

 

  یہ بات مشہور و معروف ہے کہ جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات نافذ ہوتے رہے،دنیا میں زراعت کے حوالے سے مسلم سرزمین ایک حیران کن زمین تھی۔جس وقت یورپ خشک سالی اور بھوک سے دوچار تھا تو صلیبیوں کی توجہ شام کی بابرکت زمین کی جانب مبذول ہونے کی ایک وجہ اس کی زبردست زرعی دولت بھی تھی۔ یہ خطہ زرعی پیداوار سے اس قدر مالامال تھا کہ صلیبی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک ایسے ملک جارہے ہیں جہاں ''دودھ اور شہد'' کی نہریں بہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ، جب یورپ اپنے تاریک دور سے گزر رہا تھاتو مسلمانوں کی سرزمین اہم فصلوں کو حاصل کرنے اور موسمِ گرما کی آبپاشی کے طریقے کو سمجھنے کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ جہاں تک برصغیر ہندوستان کا تعلق ہے تو یہ خطہ اسلام کے زیرسایہ ایک زرعی سپر پاور تھا جس کی مجموعی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کا 23فیصد تھی جس کا ایک بہت بڑا حصہ برآمد کیا جاتا تھا ۔ اس کی عظیم زرعی دولت،خصوصاً مسالاجات نے برطانوی استعمار کو اس کی جانب ہوس بھری نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور کردیا۔ لیکن جب برطانوی قبضے کے دوران اللہ کے احکامات کی جگہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہوئے تو اسی سرزمین پر وسیع پیمانے پر لوگ بھوک سے موت کا شکار ہونے لگے۔ اب تک زراعت کے میدان میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہی نافذ کیے جارہے ہیں جس کی بنا پر پاکستان ایک زرعی سپر پاور بننے کی استعداد رکھنے کے باوجوداس مقام سے محروم ہے۔    

 

  اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو و سیع و عریض زرعی زمین عطا ء کی ہے جس کو دریائے سندھ کا آبپاشی کا نظام سیراب کرتا ہے جو دنیا کے بڑے آبپاشی کے نظاموں میں سے ہے۔ ساتھ ساتھ چار مختلف موسم، مختلف خاصیتوں کی حامل  زمینیں اور نیم ہنر مند محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعدادسے نوازا ہے اور یہی وہ تمام اجزائے ترکیبی ہیں جو پاکستان کوایک زرعی قوت بنانے کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے پھیلاؤ اور ترقی میں زراعت نے ہمیشہ سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، صنعتوں کو خام مال فراہم کرتی ہے اور پاکستان کی بیرونی تجارت کی بنیاد ہے۔ زراعت پاکستان کی کُل پیداوار کا تقریباً 45فیصد ہے اور دیہی آبادی کے تقریباً دو تہائی حصے کو آمدنی کے ذرائع فراہم کرتی ہے ۔ زرعی شعبہ خوراک کی اہم اجناس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ  زرعی شعبے سے منسلک صنعتوں کو خام مال بھی فراہم کرتا ہے  اور  زراعت سے حاصل ہونے والے  خام مال اوران سے تیار ہونے والی اشیاء کو برآمد کر کے ملک اربوں روپے کے محاصل بھی حاصل کرتا ہے۔ اِس وقت پاکستان کی زرعی زمین اس کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہیں ہورہی اور کئی ملین ہیکٹر زمین پر کاشت کاری نہیں  ہورہی ہے۔

 

          یہ تمام تر اس صورتِ حال میں حاصل کیا گیا ہے کہ زراعت کا یہ شعبہ حکومت کی خاطر خواہ توجہ سے محروم ہے، کاشت کار پرانے طریقوں سے کاشت کاری کرنے پر مجبور ہیں، پیداوار میں اضافے اور آب پاشی کی نئی ٹیکنالوجی میسر نہیں ہے، بیماریوں کے خلاف قوت ِمدافعت موجود ہوتی ہے اور تمام قابل کاشت اراضی پر کاشت کاری بھی نہیں کی جارہی۔

 

 

  اس کے علاوہ زرعی پیداوار میں کسی بھی قسم کا اضافہ دیہی علاقوں کی غربت کو کم نہیں کرسکا بلکہ ان کی غربت میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔متعددبار زرعی زمین کی تقسیم کی اصلاحات کے نفاذ کے باوجود انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نے دولت کو چند ہاتھوں میں ہی مرتکز (محدود)کیا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے۔کروڑوں لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے  باعزت روزگار سے محروم ہیں اور پاکستان کی دیہی آبادی غربت، افلاس اور بھوک کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاشتکاروں کے لئے بنیادی ذریعہِ روزگار اب غیر زرعی طریقوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، خاص طور پر ایسے کاشتکار جن کے پاس زرعی زمین نہ ہونے کے برابر ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ روزگار کے حصول کے لیے دیہی علاقوں کی بہت بڑی تعداد کو مجبوراً اپنے دیہات چھوڑ کر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن شہروں میں بھی ان کے لیے صورتحال کوئی بہتر تبدیلی نہیں لاتی اور روزگار کے حصول کے لیے یہ لوگ سارا سارا دن سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورگھر نہ ہونے کہ بنا پر راتوں کو انھی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح زرعی قرضے کی ناکافی سہولت زراعت کے شعبے کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ زرعی قرضوں پر شرح سود بہت زیادہ ہوتا ہے جو اکثر نہ تو وقت پر میسر ہوتا ہے اور نہ ہی کاشت کاروں کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے جس کی بنا پر کاشتکار غیر سرکاری ذرائع سے قرض حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے کسانوں کے متعلق یہ ایک عام کہاوت ہے کہ ''وہ قرضے میں پیدا ہوتا ہے، قرضے میں ہی اس کی زندگی گزرتی ہے اور قرضے ہی کی حالت میں اس کا انتقال ہوتا ہے''۔ 

 

 

  انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین زرعی پیداوار میں کمی اور دیہی غربت میں اضافے کا باعث ہیں

شریعت کے قوانین کی معطلی کے بعد سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ زمینوں کی بہت بڑی تعداد کی ملکیت چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہی محدود رہے۔ اگرچہ برطانوی استعمار چلا گیا لیکن اس کا قائم کردہ سرمایہ دارانہ نظام برقرار رہا ،لہٰذا پاکستان کے زرعی شعبے میں زمینوں کی ملکیت کی یہ صورتحال ابھی بھی جاری و ساری رہی۔دیہی علاقوں کاچھوٹا سا امیر طبقہ  پاکستان کی قابلِ کاشت زمین کے تقریباً نصف  مالک ہے جبکہ تقریباً50فیصد دیہی آبادی زرعی زمین کی ملکیت سے مکمل محروم ہے۔ جو کاشتکار زرعی زمینوں سے محروم ہیں وہ مجبوراً دوسروں کی زمینوں پر کام کرتے ہیں، پھر اس زمین کے مالکان کو زمین کا کرایہ ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زرعی زمین کے مالکان کی اکثریت کوئی کام کیے بنا ہی محض زمین کے کرائے پر شاندار زندگی گزار رہی ہے۔ تو وہ لوگ جو درحقیقت زمین کو کاشت کررہے ہیں وہ اس زمین سے حاصل ہونے والے منافع کا بہت ہی کم حصہ حاصل کرپاتے ہیں جبکہ جو ان زمینوں کے مالک ہیں وہ اس زمین سے حاصل ہونے والے منافع کا بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔  1960کی دہائی کے ''سبز انقلاب''نے صورتحال کو مزید خراب کیا جب ایک چھوٹی سی اشرافیہ کو یہ حق دیا گیا کہ وہ لیز کی گئی زمینوں کو واپس حاصل کر سکتے ہیں اور ان پر کام کرنے والے کاشتکاروں کو بے دخل کرسکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دیہی غربت میں مزید اضافہ ہوا اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کا ایک سیلاب،روزگار کے حصول کے لیے ، شہروں کی جانب اُمڈ آیا۔دیہی علاقوں سے کاشتکاروں کا شہروں کا رخ کرنے اور زمین کے اصل مالکان کا خود اپنی زمینوں کو کاشت نہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان کی وسیع زرعی زمینیں غیر آباد ہوگئیں۔  

 

  جمہوریت میں چاہے کوئی بھی حکمران بنے کفریہ استعماری قوانین کے نفاذکی بدولت مسلمان مزید بدحال ہوتے جاتے ہیں کیونکہ جمہوریت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ اسلام کے قوانین کو نافذ کرے۔  لہٰذا 1990کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت نے کارپوریٹ فارمنگ کو متعارف کرایا۔ کارپوریٹ فارمنگ کو ایک صنعت کا درجہ دیا گیا اور 19ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔اس پالیسی کو ایک اہم قوت اس وقت فراہم کی گئی جب02-2001 میں مشرف حکومت نے کارپوریٹ زرعی فارمنگ پالیسی اور کارپوریٹ فارمنگ آرڈیننس جاری کیا جس کے نتیجے میں اس پالیسی کو ایک قانونی جواز اور بنیاد فراہم کی گئی اور ساتھ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مختلف قسم کے ٹیکسوں سے چھوٹ بھی فراہم کی گئی۔ کیانی و زرداری حکومت نے 2009میں زرعی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے مزید مراعات کا اعلان کیا جس کے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملک کی وسیع زمینوں کو لیز پر حاصل کرنے کی اجازت دی گئی۔

 

 

          2009 میں کیانی و زرداری حکومت نے جس پالیسی پیکج کا اعلان کیا تھا  اس کے تحت    غیر ملکی کمپنیوں کوزراعت کے شعبے میں زبردست مراعات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے پیمانے پر ریاست کی زمینیں فراہم کرنے کاانتظام کیا گیا، اور یہ پالیسی راحیل و نواز حکومت تک  جاری رہی۔

 

          موجودہ حکمرانوں کے زیر سایہ یہ پالیسیاں مزید بے روزگاری، مشکلات اور پیداوار میں کمی کا باعث بنیں گی۔ مقامی کاشتکار  کیمیائی کھاد، بیج، مشینری ، ٹرانسپورٹ اور تیل پر عائد بھاری  ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچلا جا رہا ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیوں کو  زمینوں کی خریداری،زرعی مشینری کی درآمد اور اپنے منافع کو واپس بیرون ملک بھجوانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی کمپنیاں نقد آور فصلوں(cash crops) کو کاشت کرنے میں دلچسپی لیتی ہیں ۔ انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ ان فصلوں کو کاشت کریں جس کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ لہٰذا استعماری پالیسیوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں جمہوریت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان کی زرعی پیداوار کی صلاحیت سے غیر ملکی کمپنیاں فائدہ اٹھائیں، پاکستان اپنے عوام کی خواراک اور لباس کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے بلکہ پاکستان اپنی عوام کی خوراک اور لباس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان اشیأ کو مہنگے داموں درآمد کرے۔      

 

 

 زرعی پیداوار اور دیہی خوشحالی کی بلندیوں کو چھونا اور خوراک کی ضروریات کو یقینی بنانا

خلافت کا قیام پاکستان میں زرعی پیداوار میں اضافہ اور دیہاتوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔ اسلامی قوانین کا دوبارہ نفاذ پاکستان میں خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار زرعی پیداوار کو یقینی بنائے گااور دیہاتوں کو خوشحالی کی صبح سے منور کردے گا۔یہ اسلام کے احکامات کی خصوصیت ہے کہ جس نے زرعی زمین کی ملکیت کو اس کی کاشت کے ساتھ منسلک کیا ہے  تو اس بات سے قطع نظر کے زمیندار کے پاس کم زمین ہے یا بہت زیادہ زمین ہے ،اس کو اپنی زمین پر کاشت کاری کو یقینی بنانا ہے، خواہ وہ ایسا خود کرے یا اس کے لیے ملازم اجرت پر رکھے۔ ریاست زرعی زمین کے مالکان کو کاشتکاری میں مدد معاونت فراہم کرنے کے لیے بلا سودی قرضے اور گرانٹ بھی فراہم کرے گی۔  

 

          ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ136میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ''ہر زمیندار کو زمین سے فائدہ اٹھانے ( کاشت کرنے) پر مجبور کیا جائے گا۔ زمین سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہوتو بیت المال سے ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کی جائے گی۔ہر وہ شخص جو زمین سے تین سال تک کوئی فائدہ اٹھائے بغیر اسے بیکار چھوڑے رکھے تو زمین اس سے لے کر کسی اور کو دے دی جائے گی''۔

 

          اگر زرعی زمین کا مالک کاشتکاری کے لیے درکار مدد فراہم ہونے کے باوجود کاشتکاری میں دلچسپی نہیں لیتا یا زمین کو کاشت نہیں کرپاتا تو اس کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کسی دوسرے شخص کو زمین کرائے پر دے دے کہ وہ اس پر کاشتکاری کرے۔رسول اللہ نے فرمایا((ازْرَعْهَا أَوْ امْنَحْهَا أَخَاكَ))'' اسے(زرعی زمین کو) خود کاشت کرو یا اپنے بھائی کو دے دو''(النسائی)۔

          ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ135میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ''زمین خواہ خراجی ہو یا عشری ،اسے اجرت لے کر زراعت کے لیے دینا ممنوع ہے (یعنی کرایہ پر دینا) ۔اسی طرح زمین کو مزارعت (یعنی ٹھیکے پر دینا ) بھی ممنوع ہے، تاہم مساقات( باغات کو کرائے پر دینا) مطلقاً جائز ہے''۔

 

اور اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ زرعی زمین جس پر کاشتکاری نہیں ہورہی اس کو کاشت میں لایا جائے، اور جو ایسی زمین سے پیداوار حاصل کرے اسے اس زمین کا مالک قرار دیتا ہے۔رسول اللہ نے فرمایا: ((مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيِّتَةً فَهِيَ لَهُ))''جس نے بنجر زمین کو آباد کیا وہ اس کا مالک بن گیا''(ترمذی)۔

 

          لہٰذا ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ134میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ''آباد کاری اور حد بندی (پتھر وغیرہ رکھ کر)بنجر زمین کا مالک بنا جا سکتا ہے''۔

 

خلافت غیر ملکیوں کی طرف سے زرعی زمین کی ملکیت حاصل کرنے کا خاتمہ کرے گی۔ اس کے علاوہ خلافت مقامی کاشتکاروں کوکاشتکاری کے لیے درکار مال (بیج،کھاد،ادویات وغیرہ )پر عائد بھاری ٹیکسوں سے نجات دلائے گی اور اسلام کا شرعی محاصل کا نظام یعنی خراج اور عُشر نافذ کرے گی، جو زمین کی استعداد اور اس سے حاصل ہونے والی اصل پیداوار پر لیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات خوارک کی فراہمی کو یقینی بنانے اور مقامی کاشتکاروں کی زندگی میں خوشحالی لانے کا باعث بنیں گے جس کا مشاہدہ یہ امت صدیوں تک اسلامی ریاست کے تحت کرچکی ہے۔ لہٰذا خلافت اُن زرعی اجناس کی کاشت کو اہمیت دے گی جس کے ذریعے امت کی خوراک اور لباس کی ضروریات کو مکمل طور پرپورا کیا جائے گا اور امت کی ضروریات سے زائد پیداوار کو،بیرونی تجارت کے ذریعے، دوسری ریاستوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لئے تعلقات کو استوار کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے یہ ضروری ہے کہ ریاست ایسے پروگرام شروع کرے جس کے ذریعے آب پاشی کے جدید نظام، کیمیائی و قدرتی کھاد اور بیماریوں کے خلاف زیادہ قوت مدافعت رکھنے والے بیجوں کی تیاری، بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے، اور زراعت سے منسلک دوسرے شعبوں میں تیز رفتار پیش رفت کی جاسکے۔ اس کے علاوہ وسیع چراہ گاہیں قائم کی جائیں گی تا کہ گلہ بانی کو فروغ اور استحکام حاصل ہو۔  

 

 

ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ165میں حزب التحریرنے اعلان کیا ہے کہ ''غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک کے اندر اس کی سرمایہ کاری کرنا ممنوع ہوگی اور کسی غیر ملکی شخص کو کوئی امتیازی رعایت نہیں دی جائے گی۔'' اور دفعہ 133میں یہ کہا گیا ہے کہ ''عشری زمین وہ ہے جہاں کے رہنے والے اس زمین پر رہتے ہوئے (بغیر کسی جنگ سے یا صلح کے) ایمان لے آئے،اسی طرح جزیرة العرب کی زمین ۔ جبکہ خراجی زمین وہ زمین ہے جو جنگ یا صلح کے ذریعے فتح کی گئی ہو ،سوائے جزیرة العرب کے۔ عشری زمین اور اس کی پیداوار کے مالک افراد ہوتے ہیں، جبکہ خراجی زمین ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور اس کی پیداوار افراد کی ملکیت ہوتی ہے، ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شرعی معاہدو ں کے ذریعے عشری زمین اور خراجی زمین کا آپس مین تبادلہ کرے اور دوسرے اموال کی طرح یہ زمین بھی بطور میراث ایک سے دوسرے کو منتقل ہوگی'' ۔

 

ہجری تاریخ :14 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 15 اپریل 2022م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک