الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

خلافت میں پاکستان کے محصولات(Revenues)اوراخراجات(Expenditures)

 

پاکستان کا موجودہ نظام کافر استعماری طاقتوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتا ہے

          ریاست کے خزانے میں محاصل کی اچھی اور بڑی مقدار لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ریاست کے امور جیسے دفاع،صحت اور تعلیم کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔  لیکن پاکستان کا موجودہ نظام ،خواہ جمہوریت ہو یا آمریت دونوں ہی کافر استعماری طاقتوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے عالمی بینک اورآئی ایم ایف(IMF) حکومت کے ساتھ مل کرغیر منصفانہ ٹیکسوں اور نجکاری کی انتہائی تضحیک آمیز پالیسیاں بناتے ہیں۔  ان پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کو اُن عوامی اثاثوں سے محروم کردیا جاتا ہے جن سے بہت بڑی مقدار میں محصول حاصل ہوسکتا ہے۔  جبکہ ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے درکار محاصل کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور ان کے لیے غیر منصفانہ ٹیکسوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے اور عوام کے پاس جو تھوڑی بہت دولت بچتی ہے وہ اس سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی غربت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اسلام میں غریب اور قرضدار پر کوئی زکوة نہیں ہے لیکن موجودہ نظام خوراک، لباس،رہائش،روزگار،وراثت،صحت اور تعلیم پر غیر منصفانہ ٹیکس لگاتا ہے جبکہ یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جو سب کے لیے یقینی طور پر میسر ہونی چاہئیں لیکن ان پر ٹیکس لگنے سے یہ چیزیں عوام کے لیے ضرورت کی بجائے مہنگی آسائش بن جاتی ہیں ۔ 

 

 

          اس کے علاوہ جہاں تک ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کافر استعماری طاقتوں اور ان کے کرپٹ مقامی ایجنٹوں کے تعمیر کردہ سودی قرضوں کے نظام کے ذریعے،انہی کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔آنے والے مالی سال میں حکمران تین ہزار ارب روپے سے زائد رقم سودی ادائیگیوں پر خرچ کریں گے جبکہ سود اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول کو جنگ کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔  اسلام کے حکم کے مطابق 3 ہزار ارب روپے سود کی ادائیگی سے انکار کیا جانا چاہیے تھا ، لیکن پاکستان کے حکمران وفاقی بجٹ میں3500 ارب روپے کے خسارے کو پوراکرنے کے لیے مزید سودی قرض لیں گے۔  لہٰذاماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی پاکستان کو مزید سودی قرض کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ 1971میں پاکستان کا قرض 30ارب روپے تھا ، لیکن 1991تک بڑھ کر 825ارب روپے ہوگیا تھا۔ 2011میں پاکستان کا قرض بڑھ کر 10ہزار ارب روپے ہوگیا تھا اور صرف دس سال کے عرصے میں اب یہ قرض چار گنا بڑھ کر40ہزار ارب روپے کے قریب پہنچ رہا ہے۔

 

 

          اس بات سے قطع نظر کہ حکمرانی میں کون آتا ہے ،آیا وہ جمہوری حکمران ہے یا آمر،اس استعماری نظام میں پاکستان کے محاصل اورا خراجات کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت اور آمریت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قوانین کو نافذ نہیں کیا جاتا بلکہ انسان اپنی خواہشات کے مطابق قوانین بناتے اور نافذ کرتے ہیں۔

 

  پاکستان کا موجودہ نظام معاشرے کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے محاصل سے محروم کرتا ہے

          سرمایہ داریت،چاہے جمہوریت یا آمریت دونوں میں سےکسی بھی ذریعے سے پاکستان میں نافذ ہو،وہ نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو تیل ، گیس اور بجلی جیسے  عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے۔  لہٰذاتیل، گیس اور بجلی کے قیمتی اثاثوں کے ملکی اور غیر ملکی مالکان ان اثاثوں سے زبردست محاصل اور منافع حاصل کرتے ہیں ۔ سرمایہ داریت (کیپٹل ازم)اور کمیونزم کے برخلاف اسلام میں توانائی کے وسائل نہ تو پرائیویٹ کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور نہ ہی یہ کسی ریاست کی ملکیت ہو سکتے ہیں بلکہ اسلام نے انہیں مسلمانوں کی  عوامی ملکیت قرار دیا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ

"مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شریک ہیں: پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)۔"(ابو داؤد)۔

 

لہٰذا اگرچہ ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں کے امور کی دیکھ بھال کرتی ہے لیکن خلافت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی عوامی اثاثے کو  نجی ملکیت میں منتقل کردے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا گروہ کیونکہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ آنے والی خلافت ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دے کر ان توانائی کے وسائل کو اُن ممالک کو برآمد کرے گی جن کا مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ دشمنی کا تعلق نہ ہواوریوں کثیر محصول حاصل کرے گی۔  اس طرح سے خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امت کی اس دولت کو امت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کمائیں اور حکومت اِن وسائل پر بڑے بڑے ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑ دے ۔  اس کے علاوہ سرمایہ داریت نجی ملکیت کے تصور کو فروغ دیتی  ہے جس کے نتیجے میں وہ ادارے کہ جن کو بنیادی طور پر ریاست کی ملکیت میں ہونا چاہیے جیسے اسلحہ سازی،بھاری مشینری تیار کرنے کے کارخانے،ذرائع مواصلات،بڑی بڑی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ،بھی نجی شعبے کا کاروبار بن جاتے ہیں جس کے نتیجے میں عوامی مفادات غصب ہوتے ہیں۔  ان شاءاللہ آنے والی خلافت ایسے اداروں کو بنیادی طور پر سرکاری شعبے میں قائم کرے گی اورمقامی نجی کمپنیاں بھی ان شعبوں میں حکومت کے زیرِ نگرانی  کام کرسکیں گی تاکہ آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے اس تاریک دور میں نجی کمپنیاں ریاستی کردار پر حاوی ہو چکی ہیں اس کا تدارک ہوسکے ۔

 

 

          اسلام کی غیر موجودگی میں دنیا کی دولت مند ترین کمپنیاں وہ ہیں جو توانائی، اسلحہ،بھاری مشینری،ادویات اور مواصلات کے شعبوں سے متعلق ہیں۔  لہٰذا حکومتوں کے پاس محاصل کے حصول کے لیے صرف ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کر کے ان کے لیے سانس لینا بھی دشوار کردے۔  مزید یہ کہ پاکستان کے معاملے میں ایجنٹ حکمران، استعماری طاقتوں کے ایماء  پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے مشینری اور دوسرے پیداواری وسائل کی درآمد پر ایکسائز ڈیوٹی کی  شرح کو ان کے لیے کم کرنا، منافع پر ٹیکسوں کی چھوٹ فراہم کرنا،اورپھریہ  منافع واپس غیر ملکی معیشتوں کی طرف لَوٹتا ہے اور انہیں مضبوط بناتا ہے۔  نیز پاکستان کی پیداواری صنعتی ڈھانچے کو غیر ملکی سرمایہ کاری نے ہڑپ کر لیا ہے،جس کا ثبوت خود حکومت کے غیر ملکی سرمایہ کاری(FDI) کے اعدادوشمار ہیں،جو ہر آنے والی حکومت میں بڑھتے رہتے ہیں۔

 

ملک کی بڑی اکثریت کے گرد ٹیکسوں کا پھندا تنگ  تر ہو رہا ہے جبکہ چند لوگ امیر سے امیر ترہورہے ہیں

          آمدنی اور اشیاء کی خریداری اوران کے استعمال پر آئی ایم ایف(I.M.F) کے زیر نگرانی ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔88-1987میں کل محاصل117ارب، جبکہ03-2002میں 706ارب روپے تھے۔2009-2008کے مالی سال میں ٹیکس آمدن ایک ہزار ارب روپے سے زائد تھی، لیکن پھر2014-2013میں یہ دوگنی ہو کر دو ہزار ارب روپے سے زائد ہو گئی۔ 2019-2018 میں ٹیکس آمدن پھر دوگنی ہو کر 4ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی، اور اب پاکستان کے حکمران 2022-2021کے مالی سال میں اس کو تقریباً6ہزار ارب روپے تک لے جارہے ہیں۔  یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے اس لیے ہورہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے 2025-2024کے مالی سال کے لیے 10ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔  اگر ٹیکسوں میں اضافہ اس لیے کیا جارہا ہوتا کہ ناموس رسالت کی حفاظت، یا مقبوضہ کشمیر اور مسجد الاقصیٰ کی آزادی کی تیاری کرنی ہے، تو پاکستان کے مسلمان اپنے گھر خالی کردیتے اور اپنے پیٹ سے پتھر باندھ لیتے،لیکن سود جیسے بڑے گناہ پر خرچ کرنے کے لیے غریبوں اور قرضداروں کا پیچھا کیا جانا ایک بہت بڑا جرم ہے جس کی پاکستان کے ہر کونے سے مذمت ہونی چاہیے اور اس کو مسترد کیا جانا چاہیے۔

 

 

          موجودہ بجٹ 22-2021 میں حکومت نے ٹیکس وصولی کا ہدف 58.3کھرب روپے رکھا ہے جس کا 62.6فیصد حصہ بلواسطہ ٹیکسوں Indirect taxes پر مشتمل ہے۔ لہذا محصولات کا بڑا حصہ غیر منصفانہ(Regressive) ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ غیر منصفانہ (Regressive ) ٹیکس وہ ہوتا ہے جو سب پر ایک ہی شرح سے لاگو کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں امیر آدمی کے مقابلے میں  غریب کی آمدن کا بڑا حصہ ٹیکس کے نام پر لے لیا جاتا ہے۔  باقی ماندہ 37.4فیصد براہِ راست ٹیکس کو بھی کسی صورت منصفانہ (Progressive)ٹیکس قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کے تحت بھی غریب اور قرضدار کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔  براہِ راست ٹیکس کا بہت بڑا حصہ انکم ٹیکس اور ورکرز ویلفئیر فنڈ پر ٹیکس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں جو شخص ماہانہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کماتا ہے اسے انکم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ وہ چار افراد پر مشتمل  شہری خاندان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا۔ ورکرز ویلفئیر فنڈ پر  ٹیکس لگایا جاتا ہے جبکہ ان کی کم سے کم اجرت حالیہ بجٹ میں 20 ہزار روپے ماہا نہ رکھی گئی ہے۔

 

          دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ٹیکس غریبوں پر لاگو کیے جاتے ہیں جبکہ امیر افراد کو اِن ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بہت سے مواقع (لُوپ ہولز)فراہم کیے جاتے ہیں۔   امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹرPew Research Centre کے مطابق 64 فیصد امریکی کہتے ہیں کہ وہ اِس احساس  سے بہت پریشان ہوتے ہیں کہ کارپوریٹس وفاقی ٹیکسوں کی مد میں اپنا حصہ پورا نہیں ڈالتے ، جبکہ 61 فیصد یہی بات امیر افراد کے متعلق کہتے ہیں ۔ دنیا بھر میں جمہوریت امیر  کارپوریٹس  اور افراد کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ قانون سازوں پر اثرانداز  ہوسکیں اور ان سے ایسے قوانین بنوائیں جو امیر کارپوریٹس اور افراد کے لیے فائدہ مند ہوں۔ مشکلات کے شکار لوگوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ اگر امیروں پر کم ٹیکس لاگو کیا جائے گا تو وہ کاروبار اور پیداواری عمل میں مزید سرمایہ کاری  کریں گے اور 'trickle down effect' کے تحت اس کے ثمرات غریبوں تک بھی پہنچیں گے۔ لیکن  اس کے باوجودامیر اور غریب کے درمیان فرق میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے، یہاں تک کہ معاشی بحرانوں اور کوِڈ  وباء کے لاک ڈاؤنز کے دوران بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

 

 

          اس سرمایہ دارانہ نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مدمیں حاصل ہونے والی رقم حکومت کے کل محاصل کا 60فیصدسے بھی زیادہ  ہیں۔  جس کا مطلب ہے کہ  محاصل کا بہت بڑا حصہ عوام کی تنخواہوں  پر ڈاکہ ڈال کر اورانہیں  ضروری اشیاء کی خریداری کی صلاحیت سے محروم کرکے اکٹھا کیا جاتا ہے۔  یہ کرپٹ نظام اس قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواِس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اِس بات کے حامی  ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ ہونا چاہئے۔  جہاں تک انکم ٹیکس کا تعلق ہے، تو یہ نظام اس ٹیکس کے ذریعے لوگوں کی اُس محنت کی کمائی پر ٹیکس لگاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کی تکمیل کی امید رکھتے ہیں، بجائے یہ کہ اُن کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو اُن کی بنیادی ضروریات اور کسی قدر آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچتی ہے۔  اسی طرح سیلز ٹیکس کی صورت میں بھی اُن اشیاء پرٹیکس لگایا جاتا ہے جو کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات اور کچھ آسائشوں کو پورا کرنے کی اشیاء ہیں ،بجائے یہ کہ صرف لوگوں کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگتا جو اُن کی بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچی رہتی ہے۔  اس تمام تر صورتحال کے باوجودحکمران اِس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ نظام ''عوام کے لئے(for the people)'' ہے۔  اس کے برعکس خلافت میں نہ تو انکم ٹیکس ہوتا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس، کیونکہ بنیادی طور پر نجی ملکیت ''ناقابل دستِ اندازی'' ہے۔  ٹیکس اُس فاضل دولت پر لگتا ہے جو بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچتی ہے اور یہ ٹیکس بھی ریاست کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد ہی عائد کرسکتی ہے۔  کم ٹیکس کی یہ پالیسی اس لیے ممکن ہوتی ہے کیونکہ ریاستِ خلافت کے پاس عوامی اثاثہ جات اور ریاستی ملکیت سے محاصل کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہوتا ہے۔  اس کے علاوہ مزید محصول کے لیے زرعی اور صنعتی شعبے سے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے منفردقوانین کا ایک نظام بھی موجود ہوتا ہے۔

 

اخراجات میں استعماری طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کو فوقیت دی جاتی ہے

امت کو اس کے محاصل کے ذرائع سے محروم کرنے ،نیز کمانے اور خرچ کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے بعد، حکومت استعماری ممالک سے سودی قرضے حاصل کرتی ہے۔  یہ قرضے بنیئے سے حاصل کردہ قرضوں کی مانند ہوتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھنا ہے تاکہ ان قرضوں کی ادائیگی کے نام پر پاکستان کے قیمتی اثاثوں کو ہتھیالیا جائے اور پاکستان کو اس قابل ہی نہ چھوڑا جائے کہ وہ کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا اور مغربی استعمار کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔  یہ وہ رقم ہے جس کو سودی قرضو ں کی ادائیگی کے نام پر معیشت سے نکال لیا جاتاہے اور  جس کے ذریعے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے اور ان کوکئی سہولیات پہنچائی جاسکتی ہیں۔  اور یہ  عالمی ظلم ہے کہ پاکستان کی طرح دنیا کے کئی ممالک اپنے قرضوں سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سود اور استعماری ممالک کی شرائط کی وجہ سے ان کا قرض کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔      یہ نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت ہی ہو گی جو ہمیں نہ ختم ہونے والےسودی قرضوں کی دلدل سے نکالے گی۔  خلافت قرضوں پر کوئی سود ادا نہیں کرے گی کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے،

 

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوۡا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ O فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡ‌ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ O

"مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرنے کے لئے اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تمہیں  اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان۔"(البقرۃ، 279-278)۔

 

 

محاصل اور اخراجات پر ایک طائرانہ نگاہ

          سرمایہ دارانہ نظام کے برخلاف اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔  اس کے محاصل کی اساس بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔  خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگاسکتی ہے اور یہ ٹیکس بھی صرف اخراجات کے بعد بچ رہنے والی دولت پر لگتا ہے، لہٰذا اُن لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔  یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاستِ خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی اور دوسرے اسلام کے وہ منفرد قوانین، جس کے نتیجے میں معاشرے میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوتا بلکہ اس کی منصفانہ تقسیم اور گردش میں اضافہ ہوتا ہے، محاصل کے حصول کو یقینی بناتے ہیں ۔  حزب التحریرنے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ148میں اعلان کیا ہے کہ"ریاستی بجٹ کے دائمی ابواب (مدات) ہیں جن کو شرع نے متعین کیا ہے۔  جہاں تک بجٹ سیکشنز کا تعلق ہے یا ہر سیکشن میں کتنا مال ہوتا ہے یا ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر سیکشن میں موجود مال سے متعلقہ امور کا تعلق خلیفہ کی رائے اور اجتہاد پر منحصر ہے" ۔  اور دستور کی دفعہ 149میں لکھا ہے کہ '' بیت المال کی آمدن کے دائمی ذرائع مندرجہ ذیل ہیں: فئے ،جزیہ ،خراج ، رِکاز کا خمس (پانچواں حصہ) اور زکوٰة۔  ان اموال کو ہمیشہ وصول کیا جائے گا خواہ ضرورت ہو یا نہ ہو''۔  اور دفعہ 151میں لکھا ہے کہ ''وہ اموال بھی بیت المال کی آمدن میں شمار ہوتے ہیں جو ریاست کی سرحدوں پر(دوسرے ممالک کے شہریوں سے) کسٹم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں یا عوامی ملکیت اور ریاستی ملکیت سے حاصل ہوتے ہیں یا ایسی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو یا پھر مرتدوں کے اموال''۔

 

صنعتی شعبہ محاصل کے حصول کا ایک ذریعہ 

          خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔  صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری کی درآمد اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔  بلکہ ریاست صنعتی  مال کی تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہو گا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے جس کے نتیجے میں دولت کی گردش کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔  حزب التحریرنے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ 143میں اعلان کیا ہے کہ''مسلمانوں سے زکوٰة وصول کی جائے گی۔  زکوٰة ان اموال پر لی جائے گی جن پر زکوٰة لینے کو شریعت نے متعین کر دیا ہے جیسا کہ نقدی،تجارتی مال،مویشی اور غلہ۔  جن اموال پرزکوٰة لینے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ،ان پر زکوٰ ة نہیں لی جائے گی۔  زکوٰة ہرصاحبِ نصاب شخص سے لی جائے گی خواہ و ہ مکلف ہو جیسا کہ ایک عاقل بالغ مسلمان یا وہ غیر مکلف ہو جیسا کہ بچہ اور مجنون۔ زکوٰة کو بیت المال کی ایک خاص مد میں رکھا جائے گااور اس کو قرآن کریم میں وارد اُن آٹھ مصارف میں سے کسی ایک یا ایک سے زائد کے علاوہ کہیں اور خرچ نہیں کیا جائے گا''۔

 

خراج محصول کا ذریعہ  ہو گا لیکن یہ کاشتکاروں پر بوجھ نہیں ہو گا

          اسلام کے زیر سایہ برصغیر ،جو کہ ایک زرعی معاشرہ تھا، دنیا کی کل پیداوار کا25فیصد پیداکرتا تھا۔  اس کی ایک بنیادی وجہ خراج کا نظام تھا۔  خراج کے نظام کے تحت زمین کی ملکیت تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے لیکن اس زمین کو استعمال کرنے کا حق اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت زمین کو کاشت کرنے والے کی ہوتی ہے۔  لہٰذا جو اس زمین کو کاشت کرتا ہے وہی اس زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا مالک بھی ہوتا ہے۔  اس نظام نے پیداوار میں اضافہ کیا اور دولت کی تقسیم کو یقینی بنایا۔  اس زمین کے استعمال کے عوض اور اس زمین کی استعداد کے مطابق مسلمانوں نے اس زمین سے ریاست کے لیے محصول حاصل کیا ۔  برطانوی راج میں جب سرمایہ دارانہ نظام رائج کیا گیاتو کاشتکاروں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے، پھر ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ سودی قرض حاصل کریں جس کے نتیجے میں کاشتکارقرضوں تلے دب گئے اور آخر کار انھیں اپنی زمینیں بیچنی پڑیں۔  اس کے علاوہ استعماری طاقت نے اپنے لیے اور اپنے حواریوں کے لیے زمینوں پر زبردستی قبضہ بھی کیا۔  آج بھی زرعی شعبہ سرمایہ داریت کی وجہ سے نقصان برداشت کررہا ہے اگرچہ اس تمام صورتحال کے باوجودپاکستان کی بچ جانے والی زراعت کئی شعبوں میں اب بھی دنیا میں بے مثال ہے اور اس میں اتنی استعداد ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھل پھول سکتی ہے۔  کاشتکاروں پر زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے کھاد،بیج،مشینری اور پٹرول وڈیزل پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔  پھر انھیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے منافع میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار بیرون ملک برآمد کریں۔  اس عمل کے نتیجے میں پاکستان کو نقصان ہوتا ہے اور پاکستان کو وہی اشیاء مہنگے داموں درآمد کرنا پڑتی ہیں جو وہ خود بہت بڑی تعداد میں پیدا کرسکتا ہے۔  اسلام میں محصول کوزرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔  جیسا کہ حزب التحریرنے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعہ145میں اعلان کیا ہے کہ''خراجی زمین پر خراج اس زمین کی استعداد کےمطابق لیا جائے گا جبکہ عشری زمین پر زکوٰة اس کی عملی پیداوار پر لی جائے گی''۔

 

 ٹیکس لگانا بنیادی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ چند کڑی شرائط کو پورا کر کے ہی لگایا جاسکتا ہے

          اسلام نے افراد کی نجی ملکیت کوتحفظ فراہم کیا ہے اور بغیر شرعی جواز کے اس میں سے کچھ بھی لینے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا ریاستِ خلافت میں مجبوری میں ہی ٹیکس لگایا جاسکتا ہے اور وہ بھی کڑی شرائط کو پورا کرنے کے بعد مثلاً جو محصول شریعت نے عائد کیے ہیں اگر وہ ریاست کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو صرف اُن افراد کی اُس فاضل دولت پر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے جو ان کی بنیادی ضروریات اور معاشرتی معمول کے مطابق ان کی آسائشوں کو پورا کرنے کے بعد بچی  رہتی ہے ۔  لہٰذا اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگوں کی محنت کی اُس کمائی پر ٹیکس نہ لگے جو ان کی بنیادی ضروریات اور معاشرتی معمول کے مطابق ان کی آسائشوں کوپورا کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے جبکہ سرمایہ داریت میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی صورت میں کم صاحبِ حیثیت اور معمولی آمدنی رکھنے والے لوگوں پر بھی ٹیکس لگا کر انہیں سزا دی جاتی ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ اسلام کا ٹیکس کا نظام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دولت معاشرے میں گردش کرے نہ کہ چند ہاتھوں میں جمع ہوجائے۔  پاکستان میں سب سے امیر تیس افراد کی دولت تقریباً 15ارب ڈالر ہے اور یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو ظاہر کیے گئے ہیں۔  صرف انہی تیس افراد پر 30فیصد ٹیکس ریاست کے لیے 4.5ارب ڈالر کے محصول کا باعث بن سکتا ہے۔  لہٰذا دولت مندوں پر ہنگامی صورتحال میں شرعی احکامات کے مطابق عائد کیے گئے اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کوایمرجنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے  ،جیسا کہ غریبوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے یا زلزلہ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ازالے کے لیے۔  اس کے علاوہ ریاستِ خلافت اپنے عوام سے مختلف منصوبوں کے لیے رضا کارانہ بنیادوں پر مختصر وقتی قرضہ بھی حاصل کرسکتی ہے اور یہ امت اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لیے، آج بھی بغیر کسی ریاستی تعاون کے،کئی ایسے عوامی ضروریات کے منصوبوں پر اپنا مال خودخرچ کررہی ہے۔ حزب التحریرنے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ150میں اعلان کیا ہے کہ'' بیت المال کی دائمی آمدنی اگر ریاست کے اخراجات کے لیے ناکافی ہو تب ریاست مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہ ٹیکس کی وصولی ان امور کے لیے ہے:  (١)  فقراء، مساکین، مسافر اور فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے بیت المال کے اوپر واجب نفقات کو پورا کرنے کے لیے۔  (ب) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جنہیں پورا کرنا بیت المال پر بطورِ بدل واجب ہے جیسے ملازمت کے اخراجات، فوجیوں کا راشن اور حکام کے معاوضے۔  (ج) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو مفادِ عامہ کے لیے بغیر کسی بدل کے بیت المال پر واجب ہیں۔ جیسا کہ نئی سڑکیں بنوانا، زمین سے پانی نکالنا، مساجد، اسکول اور ہسپتال بنوانا۔ (د) ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جو بیت المال پر کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے واجب ہوں جیسے ہنگامی حالت میں قحط،طوفان اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں''۔ اور دفعہ 146میں لکھا ہے کہ ''مسلمانوں سے وہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جس کی شرع نے اجازت دی ہے اور جتنا بیت المال کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو۔  شرط یہ ہے کہ یہ ٹیکس اس مال پر وصول کیا جائے گا جو صاحبِ مال کے پاس معروف طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد ہواور یہ ٹیکس ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی بھی ہو''۔  اس کے علاوہ دفعہ 147میں لکھا ہے کہ '' ہر وہ عمل (کام) جس کی انجام دہی کو شرع نے امت پر فرض قرار دیا ہے اگر بیت المال میں اتنا مال موجود نہ ہو جو اس فرض کام کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو تب یہ فرض امت کی طرف منتقل ہوگا۔  ایسی صورت میں ریاست کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ امت سے ٹیکس وصول کر کے اس ذمہ داری کو پورا کرے''۔

 

اخراجات کے لیے رہنما اصول

           خلافت ریاستی اموال، عوامی اثاثوں کی تنظیم کے ذریعے حاصل کرتی ہے نیززراعت اور صنعتوں کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبائے بغیر اور دولت مندوں کی فاضل دولت پر ٹیکس لگا کر اکٹھا کرتی ہے۔  جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تو اسلام ریاست کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ہر اس چیز پر خرچ کرے جو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے۔   حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ152میں اعلان کیا ہے کہ''بیت المال کے نفقات (اخراجات)کو چھ مصارف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  (١) وہ آٹھ مصارف جو زکوٰة کے اموال کے مستحق ہیں ان پر زکوٰة کی مد سے خرچ کیا جائے گا۔  (ب) فقراء ، مساکین، مسافر اورجہاد فی سبیل اللہ اور قرضداروں پر خرچ کرنے کے لیے اگر زکوٰة کے شعبے میں مال نہ ہو تو بیت المال کی دائمی آمدنی سے ان پر خرچ کیا جائے گا۔  اگر اس میں بھی کوئی مال نہ ہو تو قرضداروں کو توکچھ نہیں دیا جائے گالیکن فقراء، مساکین، مسافر اور جہاد کے لیے ٹیکس نافذ کیاجائے گا ۔ اگرٹیکس عائد کرنے سے فساد کا خطرہ ہو تو قرض لے کر بھی ان حاجات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔  (ج) وہ اشخاص جو ریاست کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں جیسے ملازمین،افواج اور حکمران،ان پر بیت المال کی آمدن میں سے خرچ کیا جائے گا۔  اگر بیت المال میں موجود مال اس کام کے لیے کافی نہ ہو تو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس لگایا جائے گا اور اگر فساد کا خوف ہو تو قرض لے کر یہ ضروریات پوری کی جائیں گی۔ (د) بنیادی ضروریات اور مفادات عامہ جیسے سڑکیں، مساجد، ہسپتال، سکول وغیرہ پر بیت المال میں سے خرچ کیا جائے گا۔  اگر بیت المال میں اتنا مال نہ ہو تو ٹیکس وصول کرکے ان ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔  (و) اعلیٰ معیارِ زندگی مہیا کرنے کے لیے بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا اگر بیت المال میں مال کافی نہ ہو توپھر ان پرکچھ خرچ نہیں کیا جائے گا اور ایسے اخراجات کو مؤخر کیا جائے گا۔  (ہ) اتفاقی حادثات یا ہنگامی حالات جیسے زلزلے، طوفان وغیرہ کی صورت میں بھی بیت المال سے مال خرچ کیا جائے گا۔  اگر بیت المال میں مال نہ ہو تو قرض لے کر خرچ کیا جائے گا پھر ٹیکس وصول کر کے وہ قرض ادا کیے جائیں گے''۔

 

 

ہجری تاریخ :4 من رمــضان المبارك 1443هـ
عیسوی تاریخ : منگل, 05 اپریل 2022م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک