الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ہندو ریاست کے ہاتھوں ہماری بڑھتی ہوئی ذلت و رسوائی کا سبب امریکہ سے ہمارا اتحاد ہے

 

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 21 ستمبر 2016 کو اپنے خطاب میں بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگی اور کہا کہ،"مذاکرات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔۔۔مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے"۔ اُسی دن پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے امریکہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں بھارت کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی التجا کی اور کہا کہ، "ہم سمجھتے ہیں کہ (کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے) امریکہ کی ذمہ داری ہے اور اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔۔۔ہم ا مریکہ سے یہ بات اس وقت تک کہتے رہیں گے جب تک کہ وہ یہ کردار ادا نہیں کرتا"۔ یہ دونوں پُرزور التجائیں نواز شریف کی امریکی سیکریٹری خارجہ سے دو روز قبل ہونے والی طویل ملاقات کے بعد کی گئیں ۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ، "وزیر اعظم اور سیکریٹری کیری نے کشمیر میں حالیہ تشدد پر تشویش کا اظہار کیا، خصوصاً فوجی اڈے پر ہونے والے حملے پر۔۔۔اورضروری ہے کہ تمام فریق کشیدگی کم کریں"۔

 

اے پاکستان کے مسلمانو!

امریکہ سے ہمارا اتحاد ، خطے میں بھارتی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں تقویت دینے کی بجائے مسلسل کمزور کررہا ہے۔ مشرف-عزیز حکومت کے دور میں امریکہ نے افغانستان پر حملے اوربعد ازاں اِس پر قبضہ کرنے کے لئے پاکستان کو استعمال کیا۔ پھر فوراً امریکہ نے افغانستان کے دروازے بھارت کے لئے کھول دیے تا کہ وہ وہاں اپنا غیر معمولی وجود اور اثرو رسوخ قائم کرسکے۔ اس اثر و رسوخ اور موجودگی کو اب ہندو ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے اور پاکستان بھر میں افراتفری اور فتنے کی آگ سلگا رہی ہے۔ اس کے بعد مشرف-عزیز حکومت نے امریکی مطالبے پر کشمیر میں جہاد کو "دہشت گردی" قرار دے دیا جس سے بھارت کو بہت بڑی آسانی فراہم کی گئی، وہ بھارت جس کی بزدل افواج چند مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں شدید خوفزدہ اور پریشان تھیں اگرچہ یہ مسلمان معمولی اسلحے سے لیس لیکن ایمانی جذبے سے سرشارتھے۔ اس کے بعد کیانی-زرداری حکومت نے امریکی مطالبے پر ہماری افواج کو افغانستان میں موجود امریکی افواج کے دفاع کے لئے مغربی سرحدوں پر مصروف کردیا اور اس عمل نے بھارت کو مشرقی سرحدوں پر اور بھی زیادہ آسانی فراہم کی اور اس کے علاقائی عزائم کو مزید جِلا بخشی ۔ اس کے علاوہ جنرل کیانی کے دور میں جنرل راحیل نے ذاتی طور پر، امریکی مطالبے کے عین مطابق ،پاکستان آرمی کے فوجی نظریےمیں، جسے "گرین بُک" کہا جاتا ہے، فوج کی بھارت پر توجہ مرکوز رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی کی اور اس طرح امت کی سب سے طاقتور اور باصلاحیت فوج کو بھارت کی راہ میں رکاوٹ بننے سے روک دیا ۔

 

اور اب راحیل-نواز حکومت کے دور میں فوجی و سیاسی قیادت میں موجود غدّار امریکی مطالبے کے عین مطابق بھارت سے مذاکرات کے لئے مرے جارہے ہیں تا کہ کشمیر کو آزاد کرکےپاکستان کا حصہ بنانے کی ہر امید کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے۔ امریکی مطالبے کا مقصد مذاکرات کی بھول بھلیوں کے ذریعے بھارت کی کامیابی کو یقینی بنانا ہے کیونکہ اس طرح بھارت کو وہ کامیابی ملے گی جو وہ کسی صورت میدان جنگ میں حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل راحیل نے 6 ستمبر 2016 کو امریکی مطالبے کے عین مطابق کشمیر کی مدد کو صرف سفارتی اور اخلاقی حد تک محدود کرنے کے الفاظ کو دہرایا ، انہوں نے کہا:" کشمیر ہماری شہ رگ ہےاور ہم تحریکِ آزادی کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی مدد جاری رکھیں گے"۔ جہاں تک تعلقات کو "معمول "پر لانے کی بات ہے تو اس میں امت کے لیے مزید خطرات ہیں کیونکہ یہ امریکی مطالبہ ہے تاکہ بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بنانے میں پاکستان کی طرف سے رکاوٹ نہ رہے۔ تعلقات کو معمول پر لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ "انتہا پسندی سے مقابلے" کے نام پر پاکستان میں اسلام کو کچل دیا جائے، " سرحد پار دہشت گردی کو روکنے" کے نام پر کشمیر میں جاری مسلم مزاحمت کی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا جائےاور " تحمل (Restraint) "کے نام پر اپنے ایٹمی پروگرام پر بذات خود ضرب لگائی جائے۔

 

کوئی شک نہیں کہ امریکہ سے اتحادکو فائدہ مند بنا کر پیش کرنا ایک دھوکہ ہےحالانکہ حقیقت میں یہ اتحاد ہماری کمزوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ امریکہ مسلم علاقوں میں افراتفری کی آگ لگانے، ان پر قبضہ کرنے اور ان کو بلا خوف بربریت کا نشانہ بنانے میں آگے آگے ہےاور اس کے لئے وہ خود اپنی افواج اور ہندو اور یہودی ریاست کی افواج کو استعمال کرتا ہے ۔ کسی بھی کھلے دشمن سے اتحاد کرنے سے غدّاری کو دہرانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ جہاں تک اپنے معاملات کو ، جس میں کشمیر بھی شامل ہے، اقوامِ متحدہ کے پاس لے جانے کا تعلق ہے تو یہ بے کار عمل ہے کیونکہ اس کی سیکیورٹی کونسل میں بیٹھے ویٹو کے حامل پانچوں مستقل اراکین مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اپنے معاملات لے جانا حرام ہے کیونکہ وہ ایک غیر اسلامی(طاغوتی) ادارہ ہے جہاں کفر کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا

"کیا آپ ﷺ نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایمان لائے ہیں، اس پر جو آپ ﷺ کی طرف اور آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوا، چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت(غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ طاغوت کا انکار کردیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ وہ ان کو بہکا کر دور جا ڈالے "(النساء:60)۔

 

اے افواج پاکستان کے مسلم افسران!

امریکہ کی اندھی تقلید میں راحیل-نواز حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں سے غدّاری کرنے اور ہندو ریاست کے سامنے ذلیل ہونے اور گھٹنے ٹیکنے کے لئے حرکت میں آرہی ہے۔ آپ کے غصّے سے بچنے کے لئےہر ممکن چال چلتے ہوئے، راحیل-نواز حکومت ہندو ریاست کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے اس منصوبے پر دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ کوئی بھی مخلص اور طاقتور حکمران آپ کو جہاد کا حکم جاری کرےتاکہ اس ذلّت کو ختم کیا جائے، مسلمانوں کو مصیبت سے نکالا جائے اور ان کے تھکے ماندے جسموں کو جیت کی خوشی سے معمور کیا جائے ۔ یقیناً رسول اللہﷺ کے الفاظ سچے اور برحق ہیں کہ،

مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ إلاّ ذُلّوا

"جو قوم بھی جہاد چھوڑدے وہ ذلّت کا شکار ہو جاتی ہے"(احمد)۔

 

اور ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ کے دشمن انتہائی کم تعداد ، کمزور اور معمولی اسلحے سے لیس لیکن انتہائی بہادر اور ثابت قدم مسلمانوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں تو اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب وہ ایک مکمل مسلح اور پرجوش مسلم فوج کا ایک منظم جہاد میں سامنا کریں گے ؟!

 

آج کی صورتحال میں یہ کافی نہیں کہ آپ خلافت کے منصوبے کی صرف زبانی حمایت کریں جبکہ خلافت ہی ہمارے دشمنوں کے خلاف حقیقی طاقت اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ کی اِس زبانی حمایت نے بھی حکومت کے ہوش و حواس اُڑا دیے ہیں اور یہ حکومت پاگل پن میں خلافت کی پکار کو آپ کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے اغوا اور تشدد تک ہر حربہ استعمال کررہی ہے ۔ لیکن صرف زبانی حمایت کافی نہیں جبکہ اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔ حزب التحریر کی پُکار کا جواب دیں اور نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لئے نصرۃ فراہم کرکے اپنی ذمہ داری ادا کر دیں ۔

 

صرف اور صرف اسی صورت میں ایک ا یسا حکمران آپ کی قیادت کرے گا جو پوری امت کو ایک مملکت میں یکجا کر کے دنیا کی سب سے با وسائل ریاست میں بدل دے ۔ صرف اور صرف اسی صورت میں ا یک ایسا حکمران آپ کی قیادت کرے گا جس کی سب سے پہلے ترجیح یہ ہوگی کہ ہمیں دنیا کی صف اول کی ریاست میں ڈھال دے جو اسلام کے طرز زندگی کو بالادست بنانے کے لئے بین الاقوامی امور کو اپنی مرضی سے طے کرے ۔ صرف اور صرف اسی صورت میں ایک راشد حکمران یعنی مسلمانوں کا خلیفہ ،مسلم علاقوں، چاہے وہ کشمیر ہو یا افغانستان، فلسطین ہو یا عراق، کو آزاد کرانے کے لئے عظیم الشان جہاد میں آپ کی قیادت کرے گا ۔ ہم آپ کو اس چیز کی جانب بلاتے ہیں جو ہم آپ کے لئے پسند کرتے ہیں اور جو دنیا کے تمام فانی مال و متاع سے زیادہ قیمتی ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اجر اور اس کی رضا جسے حاصل کرنے کا طریقہ اپنی طاقت و قوت کے ساتھ اللہ کی راہ میں اپنی جان لگا دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

مَا أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَهُ مَا عَلَى الأَرْضِ مِنْ شَىْءٍ، إِلاَّ الشَّهِيدُ،

يَتَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ، لِمَا يَرَى مِنَ الْكَرَامَةِ

" جو بھی جنت میں داخل ہوگا وہ دنیا میں واپس جانا نہیں چاہے گا چاہے اسے دنیا کی تمام دولت ہی کیوں نہ دے دی جائے،

سوائے اس مجاہد کے جو واپس دنیا میں جانے کی خواہش کرتا ہے تا کہ وہ اس عزت کے لئے جو اسے (اللہ کی جانب سے) ملتی ہے دس بار شہید ہو"۔

 

ہجری تاریخ :28 من ذي الحجة 1437هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 30 ستمبر 2016م

حزب التحرير
ولایہ پاکستان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک