المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 4 من رمــضان المبارك 1446هـ | شمارہ نمبر: No: 1446 AH / 093 |
عیسوی تاریخ | منگل, 04 مارچ 2025 م |
پریس ریلیز
عالمی قانون کا فریب اور عالمی عدالت کی دغا بازی
(ترجمہ)
عالمی عدالتِ انصاف اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی تاکہ وہ علاقائی تنازعات، بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزیوں، ماحولیاتی مسائل، اور خاص طور پر دشمنانہ کارروائیوں اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی تنازعات میں فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
عالمی اصولوں میں یہ بات مسلمہ ہے کہ باہمی معاہدوں اور قرارداد کا احترام کیا جائے، بین الاقوامی طور پر متفقہ قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اور معروف و مسلمہ اصولوں کی پاسداری کی جائے۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس پر تمام ادوار میں عمل ہوتا رہا ہے، سوائے چند استثنائی صورتوں کے۔ تاریخ آج بھی ان لوگوں کو یاد رکھے ہوئے ہے جنہوں نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی اور شرانگیزیوں کے ساتھ حد سے تجاوز کیا اور اپنے ظلم و جرم کے باعث جانے جاتے ہیں۔ عمومی روایت کے طور پر، ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ ان اصولوں کا احترام کریں۔
ہمیں یہ تو یقین ہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے ادارے انسانیت کے مفاد کے لیے قائم نہیں کیے گئے اور نہ ہی یہ ادارے کبھی کمزوروں اور مظلوموں کے حامی رہے ہیں بلکہ یہ استعماری ممالک کا ایک آلہ ہیں، جو ان کے مفادات کو فروغ دیتے ہیں اور کمزور اقوام کو فریب دینے کے تمام طریقے اپناتے ہیں تاکہ وہ انصاف کے حصول اور مجرموں و قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے انہی اداروں کی طرف رجوع کریں۔ حالانکہ انہی طاقتور ممالک نے اپنے استعماری عزائم اور منصوبوں کے مطابق ان قوانین اور انسانی حقوق کے اصولوں کو تشکیل دیا ہے۔ اس کے ذریعے وہ غلامی اور انحصار کو ہر سطح پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور کمزور اقوام کو اس قابل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنی قسمت کے مالک بنیں، عدل کو قائم کریں اور ظالموں و جابروں کا ہاتھ روک سکیں۔
عالمی فوجداری عدالت (International Criminal Court) نے 21 نومبر 2024ء کو جو تازہ ترین احکامات جاری کیے تھے، ان میں یہودیوں کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیرِ جرائم، یوو گیلنٹ (Yoav Galant) کے وارنٹ گرفتاری شامل ہیں۔ ان پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں جنگی ہتھیار کے طور پر بھوکا رکھنا، قتل، عقوبت و ایذا رسائی اور دیگر جرائم شامل ہیں۔ عدالت نے ان اقدامات کو غیر انسانی افعال قرار دیا، جو خاص طور پر غزہ میں انجام دیے گئے۔
اس فیصلے پر میڈیا اور سیاسی حلقوں میں شدید بحث چھڑ گئی، کیونکہ یہ یہودی وجود کے نمائندوں کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔ عالمی فوجداری عدالت پر گمراہ ہونے، مضحکہ خیز، یہود مخالف جیسے الزامات عائد کر دئیے گئے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید گمبھیر اور جارحانہ زور پکڑ گیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلہ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے احتجاج کے طور پر ایک فرمان پر دستخط کر دئیے، جس کے تحت عدالت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، جبکہ نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف غزہ میں ان کے جرائم کے ارتکاب کے باعث وارنٹ گرفتاری جار ی کئے گئے تھے۔ گرفتاری کے وارنٹ کی مخالفت کی جا سکے۔ اس کے بعد نیتن یاہو نے واشنگٹن کا دورہ کیا، مگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا، جس پر قانونی ماہرین نے سخت تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی عدالت اور انصاف کے اصولوں کی توہین قرار دیا۔
قابلِ مذمت بات تو یہ ہے کہ کئی ممالک، خاص طور پر یورپی ممالک اس پر خاموش رہے اور انہوں نے ان اقدامات کے خلاف کوئی مناسب اور مضبوط ردعمل نہیں دیا، جو درحقیقت امریکہ اور یہودی وجود کو قانون سے بالاتر قرار دینے کے مترادف ہے۔ صورتحال کو مزید سنگین بنانے والی بات یہ ہے کہ جرمنی کے نو منتخب چانسلر، میرز (Merz)، نے نیتن یاہو کو جرمنی کے دورے کی دعوت دے دی، اس طرح عالمی فوجداری عدالت کی گرفتاری کے وارنٹ کو نظرانداز کر دیا۔ بلکہ وہ اس وارنٹ اور قانون سے بچنے کے طریقے تلاش کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ "ایسا راستہ نکالیں گے جس سے نیتن یاہو کو علامی فوجداری عدالت کے وارنٹ کے تحت گرفتار کیے بغیر جرمنی کا دورہ کرنے کا موقع دیا جا سکے"۔ مزید برآں، میرز نے اپنی کنزرویٹو پارٹی کی عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے ایک دن بعد منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں کہا:
"میرے خیال میں یہ بالکل مضحکہ خیز بات ہے کہ 'اسرائیل' کے ایک وزیر اعظم کو فیڈرل جمہوریہ جرمنی کے دورے سے روک دیا جائے"۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور کہا: "ہم ایسے طریقے اور وسائل تلاش کریں گے تاکہ وہ جرمنی کا دورہ کر سکے اور بغیر گرفتاری کے بحفاظت واپس جا سکے"۔ باالفاظِ دیگر، وہ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکے گا، جاری شدہ وارنٹ کو نظرانداز کر دے گا اور ان کی قطعی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں تلے روند دے گا۔ یہ فون کال کرنا خود ہی قانون کی خلاف ورزی کرنا ہےاور عدالت کے خلاف بغاوت ہے۔ ایک سیاستدان کے لیے، جو اس عہدے پر فائز ہو، یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ عوام سے تو قانون کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرے اور ساتھ ہی اس بات پر فخر کرے کہ جرمنی ایک آئینی ملک ہے جہاں قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ موجود ہے، جبکہ وہ خود اس قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔
دنیا کو اب یہ بات سمجھ لینا چاہئےکہ آج کے سیاستدان، جو عوام کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے ہیں، انہیں صرف اپنے ذاتی مفادات کی پرواہ ہے، وہ نہ تو کسی انسانی قدر کو اہمیت دیتے ہیں، نہ ہی انصاف کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ہی انہیں حق درکار ہے۔ بلکہ وہ حقائق کو مسخ کرتے ہیں، خود ساختہ قوانین اور روایات کو اپنے مفادات کے مطابق روند ڈالتے ہیں جبکہ دھوکہ دہی کے ذریعے ان قوانین کو انسانیت پر مسلط کئے ہوئے ہیں، تاکہ وہ سچائی اور اعتماد کا لبادہ اوڑھ سکیں، حالانکہ ان میں ظلم، جانبداری اور بے انصافی رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ ان کے جھوٹ اور عوام کو فریب دینے کے بے شمار طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے، جو وہ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے نافذ کئے ہوئےہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی نام نہاد تہذیب کا پورا تاریخی ریکارڈ ظلم، جبر، قتل و غارت اور دہشت گردی سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی نام نہاد ترقی اور مہذب دنیا نے انسانیت کو کچھ نہیں دیا، سوائے غربت وافلاس، محتاجی، غلامی اور جبر کے۔ گزشتہ دو صدیوں میں، جب سے یہ استعماری قوتیں عالمی سطح پر غالب آئیں اور خلافتِ اسلامیہ کا خاتمہ ہوا ہے، تب سے دنیا مسلسل ان کے ظلم سہتے ہوئے آ رہی ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی خلافت ایک ایسی ریاست تھی جو انسانیت کے احترام، معاہدات کی پاسداری، انصاف، اور حقیقی قانون کی حکمرانی کے لیے جانی جاتی تھی۔ اس کا مقصد دنیاوی مفادات نہیں بلکہ اللہ کے احکامات کی پیروی اور اس کی رضا کا حصول ہوتا تھا۔
اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے متعدد آیات میں معاہدوں کی پابندی پر زور دیا ہے، اسے ایمان کا جزو، تقویٰ کا مقام اور سچائی کی کسوٹی قرار دیا ہے،
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ﴾
"اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو"۔ (المائدۃ؛ 5:1)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
﴿وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾
"اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کر لیں اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کےوقت صبر کرنے والے ہیں یہی سچے لوگ ہیں اوریہی پرہیزگار ہیں"۔ (البقرۃ؛ 2:177)۔
اور اس کا فرمان ہے:
﴿بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ﴾
"ہاں جو شخص اپنے عہد و پیمان کو پورا کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے تو بے شک اللہ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے"۔ (آل عمران؛ 3:76)
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |