المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 25 من صـفر الخير 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 016 |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 30 اگست 2024 م |
پریس ریلیز
عربوں اور مسلمانوں کے رویبضہ حکمران حقیر لوگ ہیں !
وہ اپنی اوقات کو جانتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں !
)ترجمہ)
فلسطین کی مقدس سرزمین میں یہودیوں اور ان کے ساتھ کھڑے امریکہ کے جرائم کے خلاف عرب اور عجم کے مسلم حکمرانوں بشمول ان کی طاقتور افواج کا موجود نہ ہونا اور خاموش رہنا ہی وہ وجہ ہے جس نے یہودی وجود کو اس قدر قتل و غارت اور جنگ میں شدت لانے کا حوصلہ دیا ہے۔ یہودی وجود کو اس بات کا یقین ہے کہ امت کے حکمران اور ان کی افواج نہ صرف جامد اور ساکت ہیں بلکہ ان کی بے عملی سے آگے بڑھ کر وہ امریکہ اور اس کے یہودی پروجیکٹ کے ساتھ ان کی صفوں میں جا ملے ہیں، اور یہودی وجود کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ اور یہ سب اس خوف کی وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ ارد گرد کی مسلم ریاستوں یا مسلم سرزمین کے دیگر علاقوں میں اپنے دین اور ناموس کی پروا کرنے والا کوئی صالح فرد کہیں کوئی ردعمل نہ دکھا دے۔ یہ حکمران یہودی وجود کو ضروری سپلائیز بھی فراہم کر رہے ہیں، جیسا کہ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم، متحدہ عرب امارات، ترکی، اور مصر نے کیا ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ یہ حکمران یہودی وجود کو جنگی صنعت کے لیے ضروری سامان بھی فراہم کر رہے ہیں، جیسے ترکی کرتا آیا ہے، اور اسے ایندھن فراہم کر رہے ہیں، جیسے کہ قازقستان، آذربائیجان، اور سعودی عرب کی آرامکو کرتی ہیں۔ جبکہ اس دوران غزہ کی عوام سمیت مقدس سرزمین کے لوگ، زندگی گزارنے اور مزاحمت کے لیے ضروری اور لازمی سامان سے بھی محروم ہیں۔
عربوں اور مسلمانوں کے زیادہ تر حکمران غزہ میں ہونے والے جرائم اور قتل عام کو نظر انداز کرتے رہے ہیں، اور لوگوں کی توجہ ان سے ہٹانے اور انہیں روزمرہ کی زندگی کے مسائل میں الجھا کر رکھتے ہیں، یا تو ان کی روزمرہ کی زندگی کو مشکل بنا دیتے ہیں، یا پھر انہیں پارلیمانی یا حکومتی انتخابات کے چکر میں مشغول کر کے رکھتے ہیں، جس سے اقتدار کے عہدوں پر استعماری ایجنٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی افواج کو بھی فضول وبے کار، انتظامی کاموں میں مصروف کئے رکھتے ہیں تاکہ انہیں مسجد اقصیٰ اور اس کے مقدس مقامات کی مدد کرنے کے فرض سے غافل کیا جا سکے۔ اگر آپ ان حکمرانوں میں سے کسی کو یہودی وجود کے اقدامات کی مذمت کرتے یا ان پر شکایت کرتے ہوئے سنتے ہیں تو ان کا ایسا کرنا فقط آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اور ان حکمرانوں میں سے جو خود کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں وہ عالمی برادری سے محض اپیلیں کرتے رہتے ہیں کہ وہ ظالم یہودی وجود پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مزید قتل عام کرنے سے باز آئے۔ جبکہ ایسی اپیلیں نہ صرف ان یہودیوں کے حق میں جانبداری اور حمایت کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہیں کہ وہ درحقیقت رویبضہ اور حقیر حکمران ہیں جو اپنے لوگوں کی عسکری اور سیاسی طاقت سے بے خبر ہیں اور نہ تو امریکہ اور نہ ہی یہودی وجود پر کسی بھی طرح سے اثرانداز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی خونریزیوں کو روک سکتے ہیں۔
اور مزید ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کچھ آزاد یا نیم سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی عالمی برادری سے ایسی ہی اپیلوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جیسے کہ جامعۃ الازہر الشریف کی یہ درخواست کہ ”دنیا کی حکومتیں قابض وجود کے وزیر کے ان بیانات کے خلاف، جن میں مسجد اقصیٰ میں یہودی عبادت گاہ بنانے کی حمایت کی گئی ہے، سنجیدہ اقدامات کریں“۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ امت کے پاس ایسی پوشیدہ صلاحیتیں ہیں جو ایک ہی ضرب میں یہودی وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتی ہیں! تاہم، ان اپیلوں کا مقصد امت میں بے بسی، شکست وریخت اور ذلت کا احساس پیدا کرنا ہے اور امت کو مزید منقسم کرنا ہے، تاکہ آزمائش اور مصیبت کے وقت یہ متحد نہ ہونے پائیں، اور قومی ریاستوں کے تصور کو تقویت دینا ہے، اور سائیکس-پیکوٹ کی کھینچی لکیروں کو مقدس بنانا ہے تاکہ ہر قبیلے کو اس کے بھائی قبیلے سے جدا کیا جائے۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات امت کی افواج کا اس دردناک منظر میں غفلت برتنا ہے، اور یہ غفلت امت کے ہر سپاہی کو شرمندہ کئے دیتی ہے۔ کیونکہ فوجی قیادت نے اپنی قوم کی حمایت کرنے اور فلسطین کی مقدس سرزمین کو صلاح الدین ایوبیؒ کی طرح آزاد کرانے کے اپنے فرض کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مسلم سرزمین کے فوجی سربراہان یہودیوں، یا عربوں اور مسلمانوں کے رویبضه حقیر حکمرانوں کے لیے محض سرحدی محافظ بن کر رہ گئے ہیں، یا سرمایہ دار کمپنیوں اور جائیدادوں کے ٹھیکیدار اور مالک بننے کے علاوہ کچھ نہیں رہ چکے۔ وہ اسلام کے مردِ مجاہد کے کردار سے کوسوں دور ہیں، اور فرعون کے ہامان کی مانند بن گئے ہیں۔
اس افسوسناک حقیقت کی صورتحال میں، جہاں عرب اور مسلمانوں کے رویبضہ حقیر حکمران اور مسلمان افواج کے سربراہان، جو کہ اپنے حکمرانوں سے کسی طور بھی کم کرپٹ اور بےوقعت نہیں ہیں اور امت پر مسلط ہیں تو اسلام، مسلمانوں اور ان کے مقاصد کی حمایت کا فریضہ امت میں العز بن عبدالسلام جیسے مخلص اور متقی علماء کے کندھوں پر آتا ہے۔ مخلصین کو امت کی قیادت کرنی ہوگی تاکہ ان حکمرانوں سے جان چھڑائی جا سکےجو اپنے آپ کو غلامی اور غداری کے بازاروں میں بیچ دیتے ہیں۔ مخلصین کو امت کی قیادت کرنی ہوگی تاکہ مغرب سے آزادی حاصل کی جا سکے، اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم کی جا سکے۔ مخلصین کو سرکاری علماء کی طرح نہیں بننا چاہیے، جو رویبضہ حکمرانوں کے اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے ان کے ترجمان بن جاتے ہیں اور ان کی بزدلی اور غداری کا بازار گرم کرنے کے لے کٹھ پتلی کا کام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی افواج کے مخلص افسران کے کندھوں پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی صفوں کو بزدل دراندازوں سے پاک کریں جو ان کی قیادت پر قابض ہیں اور حزب التحریر کو نصرۃ دیں، تاکہ خلافت قائم ہو سکے، جس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں بشارت دی ہے کہ
«...ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ»
”... پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہو گی“ اور پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔ (صحیح مسلم)۔
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |