المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 18 من ربيع الاول 1446هـ | شمارہ نمبر: 1446 AH / 027 |
عیسوی تاریخ | ہفتہ, 21 ستمبر 2024 م |
پریس ریلیز
مسلم علاقوں پر یہودی وجود کے غلبہ کو مسلط کرنے کی امریکی مہم کا ایک نیا باب
)ترجمہ)
رواں ہفتے انتہائی جدید ترین خفیہ کارروائیوں کے سلسلے میں لبنان میں حزب اللہ کے ہزاروں ارکان کو نشانہ بنایا گیا جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انٹیلی جنس حملے موساد کی زیر قیادت کئے گئے تھے، اس سے یہودی جنگ کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ گزشتہ منگل کو، زوردار دھماکوں نے اس علاقے کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب حزب اللہ کے ہزاروں اراکین کے پیجرز پھٹ گئے تھے، جس کے بعد بدھ کو دھماکوں کی دوسری لہر آئی جس نے سینکڑوں واکی ٹاکی کیریئرز کو مکمل طور تباہ کردیا۔ ان حملوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا، کیونکہ پیجر دھماکوں کی وجہ سے 12 افراد ہلاک اور 2000 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ واکی ٹاکی دھماکوں میں 20 افراد ہلاک اور کم از کم 450 زخمی ہوگئے۔
یہودی وجود نے ان حملوں کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اور اس نے سرکاری طور پر ان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، لیکن بدھ کو اس کے وزیر دفاع یوو گیلانٹ (Yoav Galant) کا ”جنگ میں نئے مرحلے“ کا اعلان اس کے فوجی مؤقف میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ایک ایسی تبدیلی جس کا مقصد ایرانی پارٹی کی فوجی صلاحیتوں کو مفلوج کرنا اور لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔
اب جبکہ یہودی وجود کئی مقامی، علاقائی اور عالمی طاقتوں اور ریاستوں کی ملی بھگت سے غزہ اور مغربی کنارے میں اپنی بدترین وحشیانہ کارروائیاں ختم کرنے کے قریب تھا، تو یہ اب لبنان اور مزاحمت کاروں کی باری تھی۔ لبنان کی ایرانی پارٹی نے شمال میں یہودی وجود کی سلامتی کے لئے ہمیشہ خطرہ پیدا کیا ہے۔ ایرانی پارٹی کے اراکین کے زیر استعمال مواصلاتی آلات کو نشانہ بنانے سے ایسا لگتا ہے کہ یہودی وجود اس کی قیادت کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ ایرانی پارٹی کے مواصلاتی نظام پر یہ اسٹریٹجک توجہ مزیدجامع کارروائیوں کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے جس کا مقصد ایرانی پارٹی کی صلاحیت کو کمزور کرنا کہ وہ کوئی حملہ نہ کر سکے یا خطے میں ایران کے ایجنٹوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، تاکہ یہودی وجود کسی بھی چیلنج یا مشکل کے بغیر خطے کی واحد طاقت بن جائے۔
یہودی وجود کا مقصد واضح ہے، جو کہ ایرانی پارٹی کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے اور ایک سازگار محفوظ ماحول پیدا کرنا تاکہ ایک ملین سے زیادہ یہودیوں کی واپسی میں سہولت فراہم کی جا سکے جو اس جاری تنازعے کی وجہ سے شمال سے اور یہودی وجود سےبھاگ گئے تھے۔ ان حملوں کے عین ٹھیک نشانے پر ہونے اور بڑے پیمانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی ریاست ممکنہ طور پر ایک وسیع فوجی مہم کی تیاری کر رہا ہے جس کا مقصد اپنی شمالی سرحد پر خطرات کو بے اثر کرنا ہے۔
اگرچہ موساد کی طرف سے غلیظ انٹیلی جنس کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو وہ انجام دیتے رہے ہیں لیکن مغربی انٹیلی جنس کے گٹھ جوڑ اور تعاون کی وجہ سے اس حالیہ آپریشن کا حجم اور تکنیکی پیچیدگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہودی وجود نے اسے اکیلے انجام نہیں دیا۔ مواصلاتی آلات کا بڑے پیمانے پر یوں دھماکوں سے پھٹ جانا مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر ضروری تکنیکی مہارت فراہم کرنے میں تاکہ اس آپریشن کو انجام دیا جا سکے۔ ایرانی پارٹی کے مواصلاتی نظام میں اس طرح کی پیچیدہ ٹیکنالوجی کا انضمام اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے فراہم کردہ یا فروخت کیے گئے آلات میں یا تو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے یا انہیں ہیک کیا گیا ہے۔ ایران اور ایرانی پارٹی کی طرف سے کسی بھی ردعمل کے معمولی ہونے کی وجہ سے جس کا یہودی وجود عادی ہو چکا ہے، یہودی وجود مزید ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے کی جسارت کر پایا ہے۔
جہاں تک سانپ کے سر کا تعلق ہے، یعنی امریکہ، تو وہ مسلم ممالک کی ملٹری ٹیکنالوجی میں اسی طرح کی ہیکنگ کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ 2010ء میں امریکہ اور یہودی وجود کی جانب سے تیار کردہ سٹکس نیٹ (Stuxnet) وائرس نے ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔ 2003ء میں عراق پر حملے کے دوران، اس نے فرانس کے تیار کردہ عراقی فضائی دفاعی نظام میں چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ مصر میں 2013ء میں انقلاب کے دوران اس کے فراہم کردہ ایف 16 طیاروں کو ہیک کیے جانے کا شبہ تھا۔ اور سعودی عرب بھی 2019ءمیں اپنی تیل تنصیبات پر حملوں کو روکنے کے لیے امریکہ کے فراہم کردہ پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام پر انحصار کرنے میں ناکام رہا تھاجس سے مغربی ٹیکنالوجی پر اعتماد کی سطح کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔
یہ واقعہ ہر ایک کے لیے بالخصوص امت مسلمہ اور اس کی افواج کے لیے ایک واضح یاد دہانی ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنا دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ ممالک جو اہم انفراسٹرکچر، کمیونیکیشن یا فوجی مقاصد کے لیے مغربی فراہم کردہ آلات پر انحصار کرتے ہیں وہ نہایت حد تک غیرمحفوظ ہیں کہ یہ آلات ہیک ہو جائیں یا انہی کے خلاف استعمال ہو جائیں، جیسا کہ ایرانی پارٹی کو نشانہ بنانے والے حالیہ دھماکوں سے ظاہر ہو گیا ہے، اور یہ کہ تباہ کن اثرات کے ساتھ جدید ترین تخریب کاری دور دراز فاصلے سے بھی کی جا سکتی ہے۔ یہاں سے یہ سبق واضح ہوتا ہے کہ : وہ ریاستیں جو اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں، اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ مغربی ٹیکنالوجی پر بھروسہ کریں، چاہے وہ کتنی ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔ خاص طور پر اسلامی ممالک کو مغربی ساختہ سازوسامان پر انحصار جاری رکھنے کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے جنہیں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔ دراندازی یا چھیڑ چھاڑ کا خطرہ یقینی اور تباہ کن ہے۔
اگر مسلم ریاستیں خود مختار ہوتیں تو وہ متبادل ٹیکنالوجی گروپ تیار کرنے کی کوشش کرتیں یا اپنی مقامی صلاحیتوں کو بڑھانے میں سرمایہ کاری کرتیں۔ اگر وہ اپنے فوجی مواصلات، انٹیلی جنس انفراسٹرکچر، اور سویلین نیٹ ورکس کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں، تو انہیں سائبر اور انٹیلی جنس خطرات جیسے بیرونی خطرات سےاپنے آپ کو بچانے کے لیے مغربی سپلائرز سے آگے دیکھنا ہوگا۔ مقامی سطح پر ٹیکنالوجیوں کو تیار کرنا ہو سکتا ہے کہ زیادہ وسائل طلب ہو، لیکن اس سے جدید دور میں سکیورٹی اور خود انحصاری کا اہم اور مطلوبہ فائدہ حاصل ہو گا، جہاں انفارمیشن کی جنگ ہی ایک ایسی جنگ بن گئی ہے جس پر لڑائیوں اور جنگوں کے نتائج کا فیصلہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک کی افواج کو مغرب پر انحصار کرنےسے آزاد ہونا چاہیے کیونکہ یہ افواج اپنی عسکری صلاحیتوں کو خطرے میں ڈالنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ اور لبنان میں ہونے والا یہ حملہ صرف ایرانی پارٹی پر حملہ نہیں ہے، بلکہ کسی بھی قسم کی فوجی طاقت کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کے بارے میں ہے جس کی قابلیت مسلم ممالک میں ہونی چاہئے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کی کمزوریوں پر قابو پا کر اسے حاصل کریں۔ جی ہاں، مسلم افواج کے لئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو مغرب پر ہر طرح کا انحصار کرنے کے طوق سے آزاد کرائیں۔
اپنی خودمختاری اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے، مسلم افواج کو غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کو مسترد کرنا ہوگا اور مستقبل میں بیرونی دخل اندازی اور کنٹرول سے خود کو بچانے کے لئے خود اپنا فوجی اور مواصلاتی نظام تیار کرنا ہوگا۔ ایک خودمختار معیشت، فوج اور ٹیکنالوجی صرف اسی ریاست میں پنپ سکتی ہے جو خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر انحصار سے آزاد ہو۔ اورمسلم ممالک میں موجود ان مضر ریاستوں کے سائے تلے ایسا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ مغرب کے ماتحت ایجنٹ ریاستیں ہیں، اور ان پر نااہل غافل (رويبضہ) کی حکمرانی ہے جن کا اصل کام مسلمانوں کی جاسوسی کرنا اور ان پر حملے کرنا ہے۔ لہٰذا مغرب اور اس کی صنعت سے نجات کا تصور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے علاوہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ہم مسلم افواج میں موجود مخلص لوگوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی صورت حال کا ازالہ کریں، ایجنٹ حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرہ دیں جو ایک ایسی آزاد سیاسی، معاشی، فوجی اور تکنیکی قوت کوتشکیل دے گی جو مغرب کی بالادستی یا اس میں دراندازی کے قابل ہونے سے یکسر مختلف ہو گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لِمِثْلِ هَذَا فَلْيَعْمَلِ الْعَامِلُونَ﴾
”ایسی ہی کامیابی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے“ (سورۃ الصٰفٰت؛ 37:61)
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |