المكتب الإعــلامي
مرکزی حزب التحریر
ہجری تاریخ | 23 من شوال 1442هـ | شمارہ نمبر: 037 / 1442 AH |
عیسوی تاریخ | جمعہ, 04 جون 2021 م |
پریس ریلیز
بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی خلافت کی بحث کو جرم اور قابل سزا سمجھتی ہے
جس پر کروڑوں مسلمان ایمان رکھتے ہیں!
(ترجمہ)
29 مئی 2021 کو بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے 31 سال کے محمد اقبال کے خلاف الزامات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامی ممالک میں خلافت کے نظام کے متعلق "فیس بک پر ناقابل قبول پیغامات پھیلا رہا ہے، اور بات چیت کی مجالس منعقد کررہا ہے"، جبکہ یہ وہ نظام ہے جسے قائم کرنے کی حزب التحریر کوشش کررہی ہے۔ ایجنسی نے کہا کہ یہ الزامات بھارتی قانون اور دیگر فوجداری قوانین کے مطابق ہیں۔(اکنامک ٹائمز)
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکار حزب التحریر اور اس کے اراکین کے خلاف "دہشگردی" کے الزامات گھڑنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ سبق لیتے، اپنی غلطی سے رجوع کرتے اور اپنی توانائیاں اُن معاملات پر لگاتے جن سے لوگوں کو فائدہ ہوتا، انہوں نے اب ایک نیا الزام گھڑ لیا ہے جس کو صرف گستاخی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اب ایک ایسے ملک میں جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے، "لوگوں سے بات چیت کرنے اور فیس پر لکھنے" کو الزام بنادیا گیا ہے جس پر سزا دی جانی چاہیے!
مودی حکومت کی جانب سے اپنی متعصبانہ پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سیکیورٹی سروسز کا استعمال اتنا عام ہوچکا ہے کہ ہم اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ادارے "لاء آف دی انسٹرومنٹ" (ہر مسئلے کے لیے ایک ہی حل استعمال کرنا)کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ لاء آف دی انسٹرومنٹ ، 'ماسلو'کا ہتھوڑا(Maslow’s hammer)، جس کے متعلق ماسلونے کہا تھا، "مجھے لگتا ہے کہ یہ فتنہ انگیز ہے ، اگر آپ کے پاس صرف ایک ہی آلہ،ہتھوڑا ہے ، تو ہر چیز کے ساتھ ایسا سلوک کرنا جیسے وہ کیل ہو"۔ لہٰذا مودی حکومت اور اس کی ایجنسیاں متعصب پالیسیوں سے اس حد تک متاثر ہوچکی ہیں کہ وہ ہر مسلمان کو، جو اپنے دین کے حوالے سے پُرجوش ہے اور اپنی امت سے محبت کرتا ہے، ایک کیل کے طور پر دیکھتی ہیں، جس پر ہتھوڑا مارا جانا لازمی ہے۔ ریاستی ایجنسیوں کو ایک موثر قوت مدافعت کے نظام کی طرح ہونا چاہیے جو عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں اور ان کو نقصان سے بچاتی ہیں، لیکن وہ تو خود ایک بیماری کی شکل اختیار کرگئی ہیں جو مریض کا موثردفاع کرنے کے بجائے اس پر حملہ آور ہوتی ہیں!
یہاں ہم پوچھتے ہیں؛ کیا بھارتی حکومت جن چھ آزادیوں کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہے ، کیا آزادی رائے اُن میں سے ایک آزادی نہیں ہے؟ تو کیوں مقامی پولیس ایک ایسے شخص کو گرفتار کرتی ہے جو "لوگوں سے بات چیت کرتااور فیس پر لکھتا ہے"؟! جب حکام پر یہ بات واضح ہوگئی یہ معاملہ آزادی رائے کا ہی ہے تو پھر انہوں نے اس معاملے کو کیوں انسدادِ دہشت گردی کی ایجنسی، بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی، کو بھیجا؟! یہ کس قسم کا انصاف ہے جو خود سے ہی متصادم ہے؟! نئی دہلی کی حکومت غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے وسیع، سخت اور حد سے زیادہ استعمال میں کس حد تک جانا چاہتی ہے؟ کیا یہ کسی بھی قسم کے استدلال سے عاری ہوچکی ہے؟ بھارت کے مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے درمیان کسی حد تک جو ایک کمزور اور نازک امن بچا ہے ، یہ حکومت اسے بھی ختم کردینا چاہتی ہے؟!
کیا یہ کافی نہیں ہے کہ مودی سرکار نے بھارتی عوام کو خوفناک بحرانوں میں مبتلا کردیا ہے اور اُن کے امور سے بے مثال غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے؟ اب وہ کیوں دنیا کے اربوں مسلمانوں کے ساتھ اپنے معاملات کو خراب کر کےاپنے لیے مزید پریشانی پیدا کرنا چاہتی ہے؟ کیا نئی دہلی میں حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ خلافت اب عوامی رائے عامہ ہے جو پوری دنیا میں ہر مسلمان گھر میں پھیلی ہوئی ہے؟!کیا مودی بھول گئے کہ خود گاندھی ، جب انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی دیکھنا چاہی تو خلافت کی سالمیت کو بطور مقصد اپنایا؟کیا اب مودی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ گاندھی نے جو کیا تھا، اُس پر وہ سزا کے مستحق ہیں ؟!
ہم ہندوستان کے عقلمندوں اور ہوشمندوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ خود کو مودی حکومت کی تباہ کن پالیسیوں سے الگ کرلیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ مودی اور ان کے ساتھی انتخابی ووٹوں کو راغب کرنے کی اپنی خواہش اور اقتدار کی ہوس میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہوں نے عوام میں اس سوچ کو پروان چڑھایا کہ کورونا وائرس وبائی مرض کا خطرہ ختم ہوگیا ہے جبکہ حکومت کو ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہیے تھے؟ اقتدار کی ہوس میں ، کیا مودی اور اس کے وفد نے لوگوں کو بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی ترغیب دے کر انہیں موت کے حوالے نہیں کیا؟! یہ سب کچھ اس کے علاوہ ہے جس میں مودی اور اس کے ساتھیوں کی انتہائی متعصبانہ تقاریر پورے بھارت میں نشر کی جاتی ہیں، جس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا ہونے پر اکسایا جاتا ہے تا کہ وہ انتخابی ووٹ حاصل کرسکیں۔ اسی قسم کی تقاریر نے دوسرے ممالک کے پورے معاشروں کو ریزہ ریزہ کردیا، اور اب یہ بھارت کے نازک استحکام کو نقصان پہنچانے اور ملک کےمختلف گروہوں کے لوگوں کے درمیان موجود نازک تعلقات کو خراب کرنےکے درپے ہیں۔ بھارت کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے ہمسائیہ مسلمانوں سے اچھے تعلقات رکھیں۔ اسلامی امت اپنی نشاۃثانیہ کی تیاریاں کررہی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے اور رسول اللہﷺ کی بشارت کے مطابق جلد دوسری خلافت راشدہ قائم ہوگی۔ جب امت نشاۃ ثانیہ حاصل کرلے گی، تو امت اپنے خلاف ہونے والی تمام ناانصافیوں اور مظالم کا حساب لے گی، اور یہ دیکھے گی کہ کس نے اُمت کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور کس نے اُن پر مظالم کیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَاراً فِي الأَرْضِ فَمَا أَغْنَى عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ﴾
"کیاان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے جو لوگ ان سے پہلے تھے انکا انجام کیسا ہوا۔ (حالانکہ) وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور زمین میںنشانات (بنانے) کے اعتبار سے بہت بڑھ کر تھے۔ تو جو کچھ وہ کرتے تھے وہ انکے کچھ کام نہ آیا"(غافر:82)۔
حزب التحریر کا مرکزی میڈیا آفس ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ حزب التحریر ایک عالمی سیاسی جماعت ہے جو اسلامی دنیا میں نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے سیاسی و فکری جدوجہد کررہی ہے۔ اپنے قیام کے دن سے حزب التحریر اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتی آرہی ہے کہ سچے اور گہرے افکار اسی وقت اختیار کیے جاتے ہیں جب دماغ انہیں پڑھیں اور ان کے نفاذ کا مشاہدہ کیا جائے تا کہ انہیں دل سے قبول کیا جاسکے۔ یہی وہ سچا طریقہ کار ہے جس کے تحت افکار انفرادی اور اجتماعی رویوں کو بدلتے ہیں، اور رویے تبدیل ہو کر اعلیٰ رویے بن جاتے ہیں۔
اسی طرح ہمیں یقین ہے کہ صرف اسلام اور خلافت ہی وہ نظام ہے جو بھارت کے عوام سمیت انسانیت کو اس افراتفری کی حالت سے بچانے کے قابل ہے ، جہاں حکمران محض اپنے اقتدار کو برقرا رکھنے کے لیےاپنے ہی لوگوں کو تباہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ، ہر ایک شخص جو اپنے لوگوں کے ساتھ وفادار ہے، ضرور اُس بات کو سنیں جو حزب التحریر پیش کررہی ہے جو کہ ہمارے آقا محمد ﷺ کی زندگی کے طرز زندگی پر مبنی ایک جامع نقطہ نظر ہے۔ ہم یہ یاد کرانا چاہتے ہیں کہ جب برصغیر پاک و ہند پر انصاف پر مبنی اسلام کی حکمرانی تھی، تو اس نے غیر معمولی امن ، سلامتی اور خوشحالی دیکھی۔ بے شک ، وہ دن جلد آنے والا ہے جس دن مسلمان دنیا میں ایک بارپھر اللہ کے حکم سے اصلاح کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأُمُورِ﴾
"یہوہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰةادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سبکاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے"(الحج:41)۔
انجینئر صالح الدین عضاضہ
ڈائریکٹرمرکزی میڈیا آفس حزب التحریر
المكتب الإعلامي لحزب التحرير مرکزی حزب التحریر |
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ Al-Mazraa P.O. Box. 14-5010 Beirut- Lebanon تلفون: 009611307594 موبائل: 0096171724043 http://www.domainnomeaning.com |
فاكس: 009611307594 E-Mail: E-Mail: media (at) domainnomeaning.com |