الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

یہودی حکمران اپنی فوج کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں گولان کی پہاڑیوں اور بیتِ حنون میں قتل کریں جب کہ فلسطین کے اردگرد موجود مسلم ممالک کے حکمران اپنی افواج کواپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں

 

15مئی 2011، یومِ قبضہ فلسطین، کے موقع پر یہودی ریاست نے اپنی فوج کو فلسطین، لبنان اور گولان کے مسلمانوں پر کھلا چھوڑ دیا ،جس نے درجنوں لوگوں کو شہید اور سینکڑوں لوگوں کو زخمی کر دیا۔ ان علاقوں کی فضاء بارود کے دھوئیں سے بھرگئی، اور زمین مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گئی۔


لیکن گولیوں کی یہ تمام آوازیں، طیاروں کی گھن گرج اور دھوئیں کے بادل فلسطین کے اردگرد موجودمسلم دنیا کے حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے جگانے کے لیے کافی نہ تھے ،کہ وہ ہوش میں آئیں اور اپنے ہی لوگوں سے دشمنانہ سلوک کی بجائے اُن یہودیوں سے دشمنی کا سلوک کریں جنہوں نے ارضِ فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہ حکمران اپنے ہی لوگوں سے جنگ میں مصروف ہیں ، جو ان حکمرانوں کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ٹینکوں، پرائیویٹ فورسز اور رپبلکن گارڈز کو متحرک کیا ہوا ہے۔ اور بجائے یہ کہ وہ فلسطین، لبنان اور گولان کی سرحدوں کو جنگ کا میدان بناتے، انہوں نے اپنے ملک کے شہروں اور دیہاتوں کو میدانِ جنگ بنایا ہوا ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
یہ حکمران مسلسل اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ، جبکہ اللہ انہیں دھوکے میں ڈالے ہوئے ہے۔ یہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صیہونیت اور استعماریت کے دشمن ہیں، جبکہ وہ خود اپنے لوگوں پر ظلم کر رہے ہیں اور انہیں دبا رہے ہیں۔ لوگ ان حکمرانوں کے ظلم کے باوجوداس وجہ سے خاموش رہتے تھے کہ یہ حکمران یہودی ریاست کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اور وہ نہر سے لے کر بحر تک تمام کے تمام فلسطین کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن درحقیقت انہوں نے فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے کچھ نہیں کیا اور بالآخر نہر اور بحر سمیت اس کے درمیان کا تمام علاقہ یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کو تسلیم کر لیا اور اُس علاقے پر مذاکرات میں لگ گئے جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کیا تھا اور پھراس بات پر بھی تیار ہوگئے کہ اس علاقے میں سے دشمن جو بھی واپس کرے اسے قبول کر لیا جائے، خواہ ان علاقوں کی واپسی مکمل اتھارٹی کے بغیر ہی ہو۔


جب کہ کچھ حکمران وہ ہیں جنہوں نے یہودیوں کے ساتھ کھلم کھلامفاہمت اور دوستی کی ذلت مول لینے کا انتخاب کیا۔ اسی طرح کچھ حکمران وہ تھے جنہوں نے اصل میں تو امن معاہدے کی راہ اختیار کی مگر وہ اپنے آپ کو' مزاحمت کار‘کہلواتے تھے۔ لیکن ان حکمرانوں کی طرف سے یہودی ریاست کے خلاف مزاحمت کا یہ عالم ہے کہ گولان میںیہودی ریاست کے ساتھ ان کی سرحدیں باقی تمام سرحدوں سے زیادہ پرسکون ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ ملکِ شام کے استحکام کا دارومدار یہودی ریاست کے استحکام پر ہے!


اِن حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ یہ فلسطین کی مبارک سرزمین کی زیارت کے لیے آنے والے غیر مسلح لوگوں کی حفاظت بھی نہیں کرتے، بلکہ قبل اِس سے کہ یہودی زیارت کے لیے آنے والے لوگوں کو روکیں ،خود عرب حکمران ہی لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عرب حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی افواج کو مصروف کررکھا ہے ،جس کی وجہ سے یہودیوں کو سرحدی خلاف ورزیوں کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو یہ موقع ہاتھ آجاتا کہ وہ مقبوضہ مبارک خطے کی طرف پیش قدمی کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے قریب شام کی حکومت کے اہلکاروں اور اِن کے حواریوں کے ہوتے ہوئے کسی انسان کے لیے گولان کی پہاڑیوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔


اے مسلمانو! اے لوگو!
فلسطین کی مبارک سرزمین پر قابض یہودی ریاست کی بقاء اس کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ یہ اِن غدار حکمرانوں کی غداری اور کافر استعماری ریاستوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی بناپر ہے جنہوں نے ایک سازش کے تحت اِس یہودی ریاست کو قائم کیا تھا۔ جس کسی نے گولان کی پہاڑیوں، مارون الرأس ، قلندیا کی چیک پوسٹوں اور بیتِ حنون کے اطراف میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا ہو، نیز نہتے لوگوں کے سامنے دشمن کی قیادت کے اضطراب کو دیکھا ہو،وہ آسانی سے اِس بات کو پہچان سکتا ہے کہ یہودی ریاست کا وجود نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے ،جو کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے جیسا کہ یہودی ریاست کے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جو کچھ وقوع پذیر ہوا، وہ یہودی ریاست کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس اضطراب اور بے چینی کا دائرہ کار صرف عام یہودیوں تک محدود نہ تھا بلکہ اعلیٰ سطحی قیادت میں بھی اِس کو محسوس کیا جا سکتا ہے ، یہاں تک کہ یہودی وزیراعظم غیر مسلح لوگوں کے مارچ کو یہودی ریاست کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے! چنانچہ اُس وقت معاملہ کیا ہوگا جب ان مارچ کرنے والوں کے آگے آگے فوج ہوتی جو یہودیوں کے ناپاک وجود سے فلسطین کی سرزمین کو پاک کردیتی اور لوگوں کو اِس بات کی اجازت دیتی کہ وہ اِس مبارک سرزمین کی عزت کو بحال کرتے اور اللہ کی طرف سے نصر ملنے کی خوشی مناتے ، اگر ایسا ہوجاتا تو کیا صورتحال ہوتی؟ جبکہ ایسا کرنا شرعاً فرض بھی ہے۔ یقیناًاگر اس سے کم بھی ہوتا اور ایک فوجی لشکر مارچ کرنے والوں کے پیچھے ہوتا ،تاکہ اگر دشمن ان پر گولی چلائے تو وہ بھی اُن کو گولی کا جواب گولی سے دیں، تو دشمن کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ ان مارچ کرنے والوں پر حملہ کرتے اور اُنہیں قتل کرتے۔ کیا یہ وہ وقت نہیں ہے کہ وہ دشمن جو نہتے لوگوں کے مارچ سے ڈرتا ہے اُسے ایسی مار ماری جائے کہ وہ شیطان کے وسوسوں کو بھول جائیں؟


اے مسلمانو! اور اے یہودی ریاست کے اردگرد موجودمسلم افواج!
آپ کی رگوں میں موجود خون اُس وقت کیوں نہیں کھولتا جب آپ کے سامنے آپ کے ہی بھائیوں کا خون بے دریغ بہایا جاتا ہے؟ آپ لوگ کیسے اپنے اُن حکمرانوں کے خلاف خاموش رہ سکتے ہیں ،جو آپ کو آپ کے دشمن سے لڑنے سے روکتے ہیں، وہ دشمن جو آپ کے بھائیوں کو شہید کر رہا ہے اور آپ کے علاقوں کی حرمت کو پامال کررہا ہے؟ ایسا کیونکر ہے کہ آپ نے اپنے دشمنوں سے لڑنے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں؟ کیا آپ میں ایک بھی ایسا صالح شخص موجود نہیں جو اِن حکمرانوں کے اقتدار کا خاتمہ کردے؟ وہ حکمران جو اپنی سرزمینوں اور اپنے ہی لوگوں کا سودا کرچکے ہیں اور جنہوں نے استعماری کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ بنارکھا ہے اور فلسطین اور اُس کے گردو نواح پر یہودیوں کو اتھارٹی اور کنٹرول دے رکھا ہے؟
کیا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے یہ الفاظ آپ کے اندر خوف پیدا نہیں کرتے؟:


(وَلاَ تَرْکَنُوْا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُونِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ)
''اورظالم لوگوں کی طرف مت جھکنا،ورنہ تمہیں جہنم کی آگ آلپٹے گی اوراللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا، پھر تمہیں کہیں سے مدد نہ مل سکے گی۔‘‘ (ھود:113)


اور آپ رسول اللہﷺ کی اِس حدیث پر غور کیوں نہیں کرتے؟:


((ان الناس اذا راوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ یوشک ان یعمھم اللّٰہ بعقاب))
''اگر لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو عذاب دے‘‘(ابوداؤد، ترمذی ، ابنِ ماجہ)


اے مسلم ممالک کے حکمرانو!
عقلمند شخص وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کرسبق حاصل کرتا ہے۔ اور حالیہ واقعات اِس بات کے لیے کافی ہیں کہ تم اِن سے عبرت حاصل کرو۔ وہ جوتم سے زیادہ طاقت ور اورزیادہ جابر تھے، اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور ذلت ان کا مقدر بن چکی ہے۔ اُنہیں اُن کا اقتدار اور طاقت بچا نہ سکی۔ اُن کے حواری اور ایجنٹ اُن کا ساتھ چھوڑ گئے حتیٰ کہ اُن کے استعماری آقاؤں نے بھی اُنہیں سٹرک کنارے پھینک دیا!


اِس بات کے باوجود کہ تم لوگ اُن لوگوں میں سے ہو جو مخلص نصیحت پسند نہیں کرتے، پھر بھی حزب التحریرتمہیں نصیحت کرتی ہے! کہ تم لوگ اپنے دین، اپنی امت، اپنی سرزمین اور خود اپنے حوالے سے حد سے گزر چکے ہو:
جہاں تک دین کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اپنے دین کو پسِ پشت ڈالا ہوا ہے اور خلافت اور اِس کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف ایک جنگ برپا کررکھی ہے اور تمہاری خواہش ہے کہ تم فیصلے کے لیے طاغوت کی طرف جاؤ، جبکہ اللہ نے تمہیں طاغوت سے انکار کا حکم دیاہے۔
جہاں تک امت کا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس امت کے دشمن استعماری کفار اور یہودیوں کو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے اور اِس امت کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔
جہاں تک تمہاری سرزمینوں کا معاملہ ہے: تو تم لوگ فلسطین اور اِس کے گردونواح، کشمیر، سائپرس، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کئی دوسری اسلامی سرزمینوں سے دستبردار ہو چکے ہو۔
اور جہاں تک تمہارا اپنا معاملہ ہے: تو تم لوگوں نے اِس دنیا میں اپنے لیے ذلت و رسوائی کا ہی انتخاب کیا اورخود کو آخرت میں شدید ترین عذاب کا حق دار بنالیا ہے۔


پس اگر تمہارے اندر ذرا سا احساس بھی باقی ہے تو تم لوگ خود ہی اقتدار سے الگ ہو جاؤ ، قبل یہ کہ خلافت قائم ہوجانے کے بعد وہ تم لوگوں کو اقتدار سے ہٹائے اور عبرت کا نشانہ بنائے، وہ خلافت جس کا قائم ہونا ایک لازمی امر ہے:


(وَلَاتَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا ےَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ط اِنَّمَا ےُؤَخِّرُھُمْ لِےَوْمٍ تَشْخَصُ فِےْہِ الْاَبْصَارُ O مُھْطِعِےْنَ مُقْنِعِیْ رُءُ وْسِھِمْ لَا ےَرْتَدُّ اِلَےْھِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْءِدََتُھُمْ ھَوَآءٌ)
''اور مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ ان سے بے خبر ہے ۔ وہ اِن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ،اور لوگ سر اوپراٹھائے دوڑ رہے ہوں گے ، خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں لوٹ نہ سکیں گی اور اُن کے دل (خوف کے مارے) ہوا ہو رہے ہوں گے‘‘ (ابراھیم:42-43)


13جمادی الثانی 1432 ھ حزب التحریر
16مئی 2011ء

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : منگل, 17 مئی 2011م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک