الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان

ہجری تاریخ    17 من جمادى الثانية 1441هـ شمارہ نمبر: 1441 / 07
عیسوی تاریخ     منگل, 11 فروری 2020 م

پریس ریلیز

  • امن مذاکرات کے ذریعے امریکا سے ایمانت داری اور دیانت
  • کا مطالبہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے آگ سے پانی مانگنا!

 

طالبان نے ایک پیغام میں، جو کہ ان کا باقاعدہ موقف ہے، کہا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات کے دوران مہذب طریقے سے اپنے تمام فرائض ادا کیے ہیں لیکن یہ امریکا ہے جو بار بار 'نئے مطالبات، خدشات اور بہانے' سامنے رکھ کر بات چیت کو التوا میں ڈال رہا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے امریکی سیکریٹری خارجہ کے بیان کے جواب میں کہا، "جناب پومپیوکو الزام دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہیے"۔

 

ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس امن مذاکرات کی طوالت کے حوالے سے مندرجہ ذیل اہم نکات سامنے رکھنا چاہتا ہے:

پہلی بات یہ کہ امریکا امن مذاکرات پر دستخط کے معاملے کو مختلف بہانے بنا کر ملتوی کررہا ہے تا کہ 2020 میں ہونے والے امریکا کے صدراتی انتخابات میں ٹرمپ کی ٹیم  اس معاملے کو سیاسی پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کرسکے۔ بالکل ویسے جیسے ٹرمپ ابوبکر البغدادی اور قاسم سلیمانی کے قتل اور فلسطین کے حوالے سے"ڈیل آف دا سنچری" کے اعلان کو آنے والے انتخابات میں امریکی رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔

 

دوسری بات یہ کہ امریکا اور طالبان  امن معاہدے کے حوالے سے دو مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ معاہدوں اور عہد کو لازمی اسلامی اقدار کے طور پر دیکھتے ہیں؛ لہٰذا طالبان امریکا کے ساتھ ایک حقیقی معاہدے اور مفاہمت کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن امریکا معاہدوں اور عہد کو دھوکہ دینے کے موقعوں  کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ امریکا کی پالیسی کی بنیاد ہی دھوکہ دہی، منافقت اور معاہدوں  کے خلاف ورزی پر مبنی ہے، خصوصاً جب وہ ریاستوں اور گروہوں سے مذاکرات کررہا ہو۔ اس صورتحال میں دیانت داری اور عہد کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ لہٰذا یہ بات کوئی حیران کن اتفاق نہیں کہ امریکا کو دنیا میں سب سے زیادہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والا ملک کہا جاتا ہے۔ امن مذاکرات کے آگے بڑھنے کے حوالے سے حالیہ امریکی موقف کو اگر دیکھا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن معاہدہ نہیں چاہتا بلکہ طالبان تحریک کے خلاف سازش کررہا ہے۔

 

تیسری بات یہ کہ امن بات چیت  امریکا کا ایک قلیل المدتی سیاسی پینترا ہے جس کے ذریعے امریکا افغانستان میں اپنی شکست پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ امریکا اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ میدان جنگ میں طالبان کا ٹھنڈا پڑجانا اور امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کے حوالے سے تذبذب طالبان کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ لہٰذا امریکا طالبان کو سیاست، سفارت اور مذاکرات کے میدان میں کھینچ لایا جہاں امریکا یہ  سمجھتا ہے کہ معاملات اس کے کنٹرول میں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ جب چاہتا ہے مذاکرات کو 'ناکام' قرار دے کر مذاکرات کی میز سے اٹھ کر چلا جاتا ہے اور نئی شرائط کا تعین کرتا ہے جیسا کہ 'جنگ بندی' وغیرہ۔ 

 

چوتھی بات یہ کہ طالبان کو امریکا پر اعتبار کرنے اور امن بات چیت کی ترویج کو چھوڑ کر لازمی فوری طور پر امن مذاکرات ختم کرکے اس سے دستبردار ہوجانا چاہیے کیونکہ طالبان کی امریکی قبضے کے خلاف میدان جنگ میں مسلسل جدوجہد اور مزاحمت ہی انہیں حقیقی کامیابی سے سرفراز کرے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا یہ جانتا ہے کہ یہی وہ میدان ہے جہاں وہ حاوی نہیں ہوسکتا۔ دنیا اور خطے، خصوصاً افغانستان  میں امریکا کی سیاسی، معاشی اور فوجی ناکامی کے بہت سارے شواہد موجود ہیں ، لہٰذا طالبان کو نام نہاد امن بات چیت  کے ذریعے امریکی سفارت کاری سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے بلکہ انہیں قبضے کے خلاف لڑائی جاری رکھنی چاہیے تا کہ اسے سبق سکھایا جائے۔

 

ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ افغانستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.ht-afghanistan.org
E-Mail: info@ht-afghanistan.org

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک