Logo
Print this page

بسم الله الرحمن الرحيم

 

استنبول کے میئر کی حراست، اور اس کا مقامی اور بین الاقوامی تنازعہ سے تعلق

 

(ترجمہ)

 

تحریر: اسد منصور

 

ترکیا کی پولیس نے 19 مارچ 2025 کو استنبول کے میئر اکریم امام اوغلو کے گھر پر چھاپہ مارا،اور کرپشن، رشوت ستانی، دھوکہ دہی، مجرمانہ تنظیم کی قیادت کرنے اور دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تعاون کے الزامات کے حوالے سے تحقیقات شروع کی۔ استنبول یونیورسٹی نے ان کی یونیورسٹی کی ڈگری منسوخ کر دی، جو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔ ان چھاپوں میں تقریباً 100 مشتبہ افراد کو نشانہ بنایا گیا، جن میں سیاست دانوں، صحافیوں اور تاجروں سمیت کئی افراد کو ایک وسیع تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ۔

 

یہ صورتحال 2028 کے ترکیا کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کرنے سے کچھ دن پہلے ہی پیش آئی ہے۔ امام اوغلو نے گزشتہ سال دوسری بار میونسپل انتخابات میں اپنے حریف، ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP)کے امیدوار پر بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے عروج کو ایردوان کے اپنے ماضی کے عروج کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو استنبول کے میئر، وزیر اعظم اور پھر صدر کے طور پر دو مرتبہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔

 

اماموگلو کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے گرفتاریوں کی مہم کو بغاوت کے مترادف قرار دیتے ہوئے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ حزب اختلاف کو ڈرانے کے لیے گرفتاریوں کے ہتھکنڈے کو استعمال کر رہی ہے۔ ان کے ہزاروں حامیوں نے چھاپوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

 

ایسا لگتا ہے کہ یہ سب امام اوغلو کو صدر کے انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کی سازش ہے۔ انہیں آئندہ صدارتی انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایردوان تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے ایک قانونی چال پر کام کر رہے ہیں، ایک ایسا اقدام جس کی اس وقت آئین اجازت نہیں دیتا ۔ یہ ہدف حاصل کرنا اس کے لیے ایک ٹھوس مقصد بن گیا ہے، جسے اس کے کچھ حامیوں نے فروغ دیا ہے۔ جیسا کہ ان کے چیف قانونی مشیر، مہمت یوم نے 28 نومبر 2024 کو کہا، غیر معمولی طور پر، پارلیمانی توثیق کے ذریعے ایردوان 7 مئی 2028 کو صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ ایردوان نے اپنے دوسرے الیکشن کے بعد کہا تھا کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہوگا۔ تاہم، ان کے قوانین ظالمانہ ہیں، اور ان کی خواہشات کے مطابق بدل سکتے ہیں۔

 

سیکولر سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ان کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ترکی میں ایردوان اور ان کی پارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ کرنسی مسلسل گر رہی ہے، قیمتیں اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس نے مرکزی بینک کاشرح سود کو بڑھا کر 50فیصد کر دیا، اور پھر دیگربینک لوگوں کو اس سے بھی زیادہ شرح سود پر قرض دیتے ہیں، جس سے ملک کی مسلم آبادی ایک بڑے گناہ میں ڈوب جاتی ہے۔ اس نے غزہ کے لوگوں کو بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا ، جبکہ ڈیڑھ سال سے ان کا قتلِ عام دیکھ رہا ہے۔ ایردوان فلسطینی کاز کی حمایت کرنے اور اس کے عوام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ فریب اور لفاظی ہے۔ حقیقت میں، ایردوان نے یہودی وجود کے ساتھ اپنے تعلقات کی تصدیق کی، اور انہیں منقطع نہیں کیا۔ ایردوان نے یہودی وجود کے ساتھ تجارت جاری رکھی، اس طرح فلسطین کے لوگوں کے خلاف یہودی وجود کی حمایت کی۔

 

ایردوان امریکی مدار میں گردش کر رہے ہیں، جو انہیں یہودی وجود کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا، سوائے چند بلند بانگ اور قابل رحم مذمتوں کے۔ ایردوان خطے میں امریکہ کی پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہیں، جیسا کہ لیبیا، شام اور آذربائیجان میں ہوا، تاکہ امریکہ اقتدار میں رہنے میں ان کی حمایت کرے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر امریکہ قرض دینے والے ممالک کو ترکی سے اپنے ہنگامی غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے کی اجازت دے تو اس کا تختہ الٹنا بہت آسان ہو گا۔ ترکی ان قرضوں کو ایک سال کے اندر ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یہ قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں، 175.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جیسا کہ اس نے اس سال کے پہلے مہینے میں اعلان کیا تھا۔ یہ کل 525.8 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی واجبات میں ایک حصہ ہے، جیسا کہ 30 ستمبر 2024 کو اعلان کیا گیا تھا۔ نتیجتاً، ایردوان کی مقبولیت میں کمی آئی، اور ان کی پارٹی 31 مارچ 2024 کو بلدیاتی انتخابات ہار گئی، خاص طور پر بڑے شہروں میں، جیسے استنبول۔ ایردوان استنبول کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ وہاں جو بھی الیکشن جیتتا ہے وہ ملک کی حکمرانی جیت جاتا ہے۔

 

ایردوان کو ان کے حامیوں کی جانب سے اُس کی بے عملی اور دھوکہ دہی کے کے لیے ناقص جواز، اور درباری علمائے کرام کے جاری کردہ جعلی فتووں کے ذریعے اقتدار میں رہنے میں مدد ملی جو انہیں کبیرہ گناہوں کی اجازت دینے اور کفار کے آئین اور قوانین کو نافذ کرنے کی اجازت دیتے تھے۔ کچھ لوگ اب بھی سادہ لوحوں کو دھوکہ دینے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ایردوان 23 سال کی حکمرانی کے باوجود آہستہ آہستہ اسلام کے نفاذ کے لیے کام کر رہے ہیں، جبکہ ایردوان اندرون اور بیرون ملک سیکولرازم اور جمہوریت کے کفریہ نظریات کی تصدیق اور ترویج کرتا ہے۔

 

اکریم امام اوغلو نے مذہب کا استحصال کرنا شروع کیا، بالکل اسی طرح جیسے ایردوان نے کیا تھا، اپنی اور اپنی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP)کی مقبولیت کو بڑھایا ، جوپہلے دین (اسلام) سے دشمنی کے لیے مشہور تھی۔ یہ مصطفیٰ کمال کی جماعت ہے، خلافت اور شریعت کو تباہ کرنے والی، جس نے ہر طرح کے گناہوں کی اجازت دی، اور دین (اسلام) اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کی۔ یہ ایک برطانوی جماعت ہے، جیسا کہ مصطفیٰ کمال برطانیہ سے منسلک تھا، جس نے اس کو صدارت تک پہنچنے میں اس کی حمایت کی تھی۔ برطانیہ نے اسے ایک ہیرو بنایا اور اسے وہ تمام جرائم اور گناہ کرنے کے قابل بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت برطانیہ کی وفادار رہی۔ جھوٹا ہیرو اور علامتی فاتح (ایردوان)اپنے آپ کو عظیم سمجھتا ہے، اور اپنے آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے جو چاہے کرے۔ وہ جو بھی آئین چاہتا ہے تیار کرتا ہے، چاہے وہ دین (اسلام) پر عمل کرنے اور نافذ کرنے کے لوگوں کے مطالبات کے خلاف ہو، جیسا کہ تمام اسلامی ممالک میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو لوگوں کو بچانے والا سمجھتا ہے، جبکہ ان کی قربانیوں کو فراموش کیا، اور خود اس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا ، کہیں چھپ گیا، یہ اپنی حمایت کرنے والی غیر ملکی طاقتوں سے بندھا ہوا ہے، اور جھوٹی بہادری کے ذریعے اس کی ترویج کی گئی ۔

 

اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال کا تعلق امریکی اور یورپی دھڑوں بالخصوص برطانیہ کے درمیان مغربی تنازع سے ہے۔ یورپی میڈیا نے ایردوان کے خلاف اور امام اوغلو کے حق میں موقف اختیار کیا۔ یہ بین الاقوامی تنازع اپنے آپ کو ان استعماری جماعتوں کے پیروکاروں اور ان کے رہنماؤں کے درمیان مقامی تنازعہ کی شکل میں ظاہر کرتا ہے، کیونکہ وہ عہدوں اور ذاتی فائدے کا پیچھا کرتے ہیں۔ ترکیا میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجی موجودگی کے علاوہ، ترکیا بھی امریکی زیر قیادت نیٹو کا رکن ہے، جیسا کہ برطانیہ اور یورپی ممالک بھی ہیں، جو آپس میں جھگڑ رہے ہیں۔ برطانیہ کے اتحاد، جیسا کہ سعد آباد معاہدہ، جس کی مصطفیٰ کمال نے حمایت کی تھی، ٹوٹ چکے ہیں۔ سعد آباد معاہدے کی جگہ بغداد معاہدے نے لی تھی، جس کا ترکی ایک رکن تھا۔ بعد میں یہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا، اور CENTO اس کی جگہ پر قائم ہوا، جس کا صدر دفتر انقرہ میں تھا۔ تاہم وہ بھی منہدم ہو گیا۔ یہ ان حملوں کی وجہ سے ہے جو امریکہ نے برطانیہ کے خلاف ترکیا اور دیگر جگہوں پر اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے شروع کیے تھے، جس سے امریکہ کو برطانیہ کی جگہ لینے اور اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ اس کے باوجود، امریکہ ترکیا میں اپنے اثر و رسوخ میں کمی کے حوالے سے خوفزدہ ہے، کیونکہ برطانیہ اب بھی پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ذریعے نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ آئندہ انتخابات میں ایردوان اور ان کی پارٹی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دے سکتا ہے، جیسا کہ بلدیاتی انتخابات میں ہوا تھا، اور مختلف قوتوں، خاص طور پر کرد قوم پرست جماعتوں کو راغب کر سکتا ہے۔

 

لہذا، ایردوان اور ان کے اتحادی، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP)کے رہنما ڈیولٹ باہسیلی نے اوکلان کو جیل سے رہا کرنے کے لیے ایک کوشش شروع کی اور اس سےمطالبہ کیا کہ وہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK)کو تحلیل کر دیں، جس پر برطانوی ایجنٹوں کا غلبہ تھا۔ یہ وہ پارٹی ہے جس کی اوکلان نے بنیاد رکھی اور 1999 میں اپنی گرفتاری تک اس کی قیادت کی۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور ترکی میں سیاسی عمل میں حصہ لیں۔ ایردوان نے ایسا کر کے اپنی مقبولیت کو بڑھانے کی کوشش کی۔

 

ترکی اور دیگر جگہوں کے مسلمان اس وقت تک استعمار کے ظلم سے آزادی (تحریر) حاصل نہیں کر سکیں گے جب تک کہ وہ اس کے نظریات کو رد نہیں کرتے، اس کی حکومتوں اور ایجنٹوں کو ختم نہیں کرتے، اس کے آئین اور قوانین کو ترک نہیں کرتے، اس سے تعلقات منقطع نہیں کرتے، اور اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مضبوط رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس مضبوط اسلامی بندھن کو مضبوطی سے تھام لیں جس کو توڑا نہیں جاسکتا، انہیں جابروں کو مسترد کرنا چاہیے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر ایمان رکھنا چاہیے، اور صرف ان ہی بنیادوں پر اپنی جماعتیں اور اپنی ریاست قائم کریں۔

 

 

Last modified onپیر, 07 اپریل 2025 17:24

Latest from

Template Design © Joomla Templates | GavickPro. All rights reserved.